اورنگزیب یوسفزئی دسمبر 2014

 

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 16
آیاتِ محکمات اور متشابہات

 

Translation 16: Mohkamaat and Mutashabihaat

 

 

قرآنِ کریم کے موضوعاتی تراجم کے سلسلے کی اس قسط میں ہم ایک ایسا مخصوص موضوع ٹھوس علمی تحقیق کی چھلنی سے گذاریں گے جو اسلام کے اولین دور سے ہی مباحث کا ہدف رہا ہے ۔ اس ضمن میں ہم سب کا وہ عقیدہ زیرِ تحقیق لایا جائیگا جس کے رُو سے امت میں ایک عمومی اتفاق پایا جاتا ہے کہ قرآن کا متن دو علیحدہ علیحدہ نوعیت کی آیات پر مشتمل ہے۔ اور وہ اسطرح کہ،،،، ان میں سے کچھ آیات اُس مخصوص اسلوب میں بیان کی گئی ہیں جسے " محکمات " کا نام دیا گیا ہے اور جو اپنے پیغام یا مفہوم کو ' بآسانی' ظاہر کر دیتی ہیں ۔ اور کچھ دوسری آیات ہیں جن کا اسلوب " متشابہات " کی ذیل میں آتا ہے، جن میں تشبیہات و استعارات کی زبان میں بات کی گئی ہے ، جس کے باعث ان کی تفیہم مشتبہ شکل اختیار کر گئی ہے ۔ لہذا انہیں بآسانی سمجھنا مشکل ہے ۔ اس نظریہ کے مطابق اشارہ یہ دیا جاتا ہے کہ ثانوی نوعیت کی آیات کی تفہیم کے ضمن میں زیادہ رد و قدح کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ متقدمین نے ان سے جو بھی استنباط کیا ہے اور اس کے مطابق جو بھی مفہوم پیش کر دیا گیا ہے اسے ان کے احترام میں بلا چون و چرا مان لیا جانا چاہیئے ،،، اسلیے کہ ،،،، قرآنی عبارت میں بھی کچھ ایسی ہی تلقین فرمائی گئی ہے ۔

دراصل اس موضوع پر آج کے دن تک متوارث چلا آرہا مباحثہ سراسر ایک عدد بڑی غلط فہمی کی بنیاد پر قائم ہے۔ جیسے ہی وہ غلط فہمی دور ہو جائے، تمامتر مباحثہ اپنی موت آپ مر سکتا ہے اور قرآن کا منشاء و مقصود صاف طور پر نکھر کر سامنے آ سکتا ہے۔ یہ غلط فہمی عہدِملوکیت کے دو نمبر کے جعلی اسلام کی پیدا کردہ ہے جہاں حقیقی اسلام اور قرآنی تفاسیر کو بد نیتی سے کام لیتے ہوئےاُس اصل سے یکسر ہٹا دیا گیا تھا جس کی وضاحت ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بنفسِ نفیس فرما دی تھی۔ اگر وہ اصل قائم رہتی تو ملوکیت کو اپنی جڑیں قائم کرنے کی مہلت کبھی نہ مل سکتی تھی۔

معزز قارئین ، نہایت ادب سے عرض کرتا ہوں کہ اسلاف کا درج بالا استنباط قطعی بے بنیاد، لغو اور غیر قرآنی ہے ۔ اس لیے خواہ سابق زمانوں میں اس سے متفق ہونے والوں میں نہایت محترم نام بھی شامل ہوں، اسے کالعدم قرار دینا از حد ضروری ہے ۔ راقم کی جدید ترین تحقیق کے مطابق تو قرآن عظیم کا سارا کا سارا متن ایک ادبِ عالی کے درجے پر فائز ہے ۔ ادب کا ایک کلاسیکل شہ پارہ ہمیشہ ہی تشبیہات، محاورات، ضرب الامثال اور استعارات کے خوبصورت استعمال سے لیس ہوتا ہے اور اسی بنا پر اسے کلاسیکل کا درجہ عطا کیا جاتا ہے ۔ قرآنِ عالیشان ایک ایسا ہی ادبی شہ پارہ ہے ۔ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ متوارث چلا آ رہا محکمات اور متشابہات کا نظریہ اپنے تئیں کتنی وثاقت کا حامل ہے اور کیا واقعی قرآن بھی اسی نظریے کی تائید فرماتا ہے،،،،،، یا کچھ اس کے برعکس اظہار کرتا ہے ۔

اس موضوع سے متعلقہ دو عدد آیاتِ مبارکہ کا جدید شعوری اور تحقیقی ترجمہ پیش کر دیا جاتا ہے، جس میں آپ دیکھیں کے کہ دونوں بنیادی الفاظ یا اصطلاحات کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت متعدد مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔

یہ واضح کر دیا جائے کہ یہ عاجز نہ ہی خود کوئی مسلک رکھتا ہےاور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں،،،،، اس ضروری تاکید کے ساتھ کہ قرآن پر جاری جدید ترین ریسرچ تبھی اپنی جگہ بنا پائے گی ، اور اسلام کا حقیقی منزہ چہرہ تب ہی سامنے آ سکے گا، جب ہم ارتقائے علم کے موجودہ دور میں اسلاف کی اندھی تقلید کو ترک کرنے کا مشرب بلا خوف اختیار کر لیں گے، اور اپنی سوچوں کا رُخ علم و شعور کے استعمال کی جانب موڑ لیں گے ۔ اس سلسلے میں ممکنہ اغلاط کی نشاندہی کو خوش آمدید کہا جائیگا ۔ نیز سند کے ساتھ پیش کی گئی کسی بھی علمی تصحیح کو فی الفور شرفِ قبولیت بخشا جائیگا، کیونکہ اس قرآنی تحقیق میں پیش کیا گیا کوئی بھی مواد حرفِ آخر نہیں ہو سکتا جب تک کہ انسانی علم و شعور کا ارتقاء جاری و ساری ہے ۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن دراصل کیا فرما رہا ہے،،،،،اور ہم سب کو کس طرح اس کی درست اور محکم راہ سے بھٹکا دیا گیا ہے ۔ متعلقہ آیتِ مبارکہ قرآن کی سطروں میں واضح طور پراس طرح سے ضبطِ تحریر میں لائی گئی ہے :-

آیت 3/7: هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ‌ مُتَشَابِهَاتٌ
تو عرض یہ ہے کہ اب تک چلے آ رہے گمراہ کن روایتی لفظی ترجمے کے مقابلے میں اس آیت کا با محاورۃ ادبی و علمی ترجمہ کچھ اس طرح ہوگا :
"وہی ہے جس نے آپ پر قوانین کا مجموعہ نازل فرمایا جس میں وہ آیات ہیں جو فیصلہ کن اور دانائی پر مبنی ہیں (مُّحْكَمَاتٌ ) اور یہی سب (ھن) اس الکتاب کی بنیاد ہیں (ام الکتاب) ۔ اور اس کے علاوہ جو بھی دیگر مواد ہے ( و اُخر) وہ اس کے متشابہ بنا دیے جانے کی جہت سےمبہم ، مشتبہ، الجھا دینے والا (confusing) ہے(مُتَشَابِهَاتٌ)۔

اب انتہائی توجہ سےغور فرما لیجیئے کہ اللہ تعالیٰ یہاں قرآن کے متن کے اندر ہی موجود دو اقسام کی آیات (یعنی محکمات اور متشابہات ) کا ذکر نہیں فرماتا،،،،،،بلکہ فرماتا ہے کہ قرآن تو صرف ایسے ہی کلام پر مبنی ہے جو واضح، فیصلہ کن اور دانائی کا حامل ہے۔ دیگر کلام یا مواد جسے متشابہات کہا گیا ہے، یعنی جسے قرآن کے متماثل قرار دیا جاتا ہے، قرآن کے علاوہ ہے،،،،، یعنی خارج از قرآن ذرائع پر مشتمل ہے ۔
یعنی ثابت ہوا کہ آج تک چلی آ رہی تفاسیر اور تراجم صرف اور صرف مسلمان کو گمراہ کرتی اور لا یعنی بحث و تکرار کا راستہ ہموار کرتی چلی آ رہی ہیں،،،،اور یہی اسلام اور مسلمان کے لیے عہدِ ملوکیت کا بدبو دار تحفہ اور میراث ہے ۔

اب آئیے تصریف الآیات کے مسلمہ اصول کے ذریعے اپنے مندرجہ بالا استنباط کی قرآن ہی سے بھرپور توثیق بھی کر لیتے ہیں ۔

ملاحظہ فرمائیے آیتِ مبارکہ 11/1 : الر‌ ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ‌
ترجمہ: یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی سب آیات فیصلہ کن اور دانائی کی حامل بنا دی گئی ہیں (احکمت) نیز بعد ازاں اس صاحبِ دانش اور باخبر ذات کی جانب سے تفصیل سے بیان بھی کر دی گئی ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ تم سب اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگ جاؤ۔

کہیئے، کیا تصریف الآیات کے مسلمہ اصول کے ذریعے بات بالکل واضح نہیں ہو گئی؟
یہ اس ذاتِ پاک کا قطعی فیصلہ ہے کہ اس کتاب کی تمام آیات محکم ہیں ۔ لہذا کچھ کا محکم ہونا اور کچھ کا متشابہ ہونا قطعی غیر قرآنی استنباط ہے اور قرآن سے ہرگز ثابت نہیں ہے ۔

کیونکہ ساتھیوں کے اذہان میں کچھ دیگر سوالات بھی اُٹھ سکتے ہیں ، اس لیے بنیادی آیت کا مکمل ترجمہ بھی پیش کر دیا جاتا ہے ۔

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ‌ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّـهُ ۗ وَالرَّ‌اسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَ‌بِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ‌ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
"وہی ہے جس نے آپ پر قوانین کا مجموعہ نازل فرمایا جس میں وہ آیات ہیں جو فیصلہ کن اور دانائی پر مبنی ہیں اور یہی سب (ھن) اس الکتاب کی بنیاد ہیں (ام الکتاب) ۔ اور اس کے علاوہ جو بھی دیگر مواد ہے ( و اُخر) وہ اس کے مماثل کہلانے کی جہت سےمبہم اور مشتبہ ہے ۔ پس وہ لوگ جن کے ذہنوں میں کجی پائی جاتی ہے ، وہ تو بہر حال اسی کا اتباع کریں گے جو اس الکتاب کے متماثل سمجھا جانے والا مبہم اور مشتبہ مواد ہے تاکہ فتنہ پھیلا نے کی خواہش پوری کی جائے اور اس کے ذریعےقرآنی آیات کی من مرضی کی تشریح کی جائے ۔ اور ان کی اُس تاویل/تشریح کو اللہ تعالیٰ اچھی طرح جانتا ہے۔ جب کہ وہ لوگ جو علم میں راسخ ہیں وہ یہی موقف رکھیں گے کہ ہم توصرف اسی مواد پر یقین رکھتے ہیں جو تمام کا تمام ہمارے رب کی جانب سے عطا کیا جاتا ہے ۔ اور یہ اصول صرف اصحاب علم و دانش ہی پیشِ نظررکھتے اور اس کی پیروی کرتے ہیں ۔"

اور اب آخر میں دونوں اہم الفاظ کا مستند ترجمہ :
شبہ : ش ب ہ ؛ shabaha : کسی کے جیسا ہونا، مشابہت ہونا، کسی کا حصہ بن جانا، نقل کرنا، نقل بنانا، مشترکہ اوصاف کا موازنہ کرنا؛ مبہم ہونا/مشتبہ ہونا/گمنام ہونا/الجھا دیا جانا؛ تقابل/مثال/ضرب المثال/درجےیا صفات میں مماثلت ہونا/باہم منطبق ہو سکنا۔ متشابہ؛ متشابہات : وہ اشیاء جو آپس میں مشابہت رکھ کر پریشانی ،ابہام اور اشتباہ پیدا کریں
= Shiin-Ba-ha = to be like, to resemble/assimilate/liken/imitate, to compare one thing with another due to an attribute connecting them or is common to them: can be real or ideal - real: "this dollar is like this dollar" ideal: "John is like the lion/ass (i.e. strength/stupidity)", appear like another thing, ambiguous/dubious/obscure, comparison/similitude/parable/simile, co similar, resemble (in quality or attributes), conformable.
With reference to the Quran is that of which the meaning is not be learned from its words and this is of two sorts: one is that of which the meaning is known by referring to what is termed "muhkam" and the other is that of which the knowledge of its real meaning is not attainable in any way or it means what is not understood without repeated consideration. (e.g. 3:7)
شّبہ لہ lie rendered it confused to himn [by nmaking it to appear like some other
thing]; (JS,' TA;)he rendered it ambiguous, dubious, or obscure, to him.

ح ک م : روک دینا، اختیار استعمال کرنا، حکم دینا، فیصلہ دینا، دانا ہونا۔ کسی کو غلط کام یا طریق سے روک دینا، سزا سنانا، قانونی فیصلہ کرنا، قانونی اختیار استعمال کرنا، دائرہ اختیار، حکومت، ملکیت، گورنمنٹ، علم اور دانائی کا حامل ہونا، کسی چیز کو ہنر کے استعمال سے نقائص سے پاک، مضبوط، محفوظ، آزاد کر دینا۔۔۔ محکم ؛ محکمات : کوئی بھی شے/اشیاء جو اختیار، مضبوطی، تحفظ کی حامل ہو، فیصلہ کن ہو، دانائی پر مبنی ہو، بے عیب ہو اور کاملیت کی حامل ہو
To restrain from, exercise authority, command, give judgment, judge, be wise. To restrain/prevent/withhold a person from acting in an evil or corrupt manner, to judge or give judgement, pass sentence, decide judicially, exercise judicial authority/jurisdiction/rule/dominion/government, order or ordain or decree a thing, to be wise, to be sound in judgement, possess knowledge or science and wisdom, render a thing firm/stable/sound/free from defect or imperfection by the exercise of skill

 

 

 

.