اورنگزیب یوسفزئی فروری ۲۰۱۴


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر7


موت، بعث ، حیاتِ نو اور شعور

 

سوال: کیادرجِ ذیل آیات سے عالمِ برزخ اور عذابِ قبر اور شعور کے تصور کا رد نہیں ہو جاتا ؟ یہ آیات ہیں: ۲/۱۵۴، ۱۶/۲۰-۲۱، ۳/۱۶۹-۱۷۰ ، ۲۲/۵۸ ، اور ۲۳/۱۲-۱۶ ۔
جواب:
آپ کے تین[ ۳] سوالات ہیں۔ شعور کے تصور کا رد، عذابِ قبر کا رد اور عالمِ برزخ کا رد ؟
شعور کے رد کا تصور تو مذکورہ آیات میں کہیں سے بھی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ان آیات میں ہر جگہ جس حیاتِ نو کی بشارت دی گئی ہے وہ شعوری حیات ہی ہے ۔کیونکہ جسمانی موت تو اٹل ہے اور جسمانی زندگی دوبارہ نہیں لوٹ سکتی ۔ فطرت کے طریق کار اور طرزِ عمل میں کبھی کوئی ریورس گیئر نہیں لگتا بلکہ صرف آگے ہی آگے کا ، اور بلند تر مرحلوں کے حصول کا سفر درپیش ہے ۔ تخلیق کے تمام تر عمل کے پیچھے یہی مقصد کارفرما ہے ۔ قرآن میں اسے "صراطِ مستقیم" اسی لیے کہا گیا ہے ۔ اگلا بلند تر اور شاید آخری اور انتہائی مرحلہ خالص شعوری حیات کا مرحلہ ہے جسے قرآن میں بجا طور پر "حیاتِ آخرت" کا نام دیا گیا ہے ۔ اورجس کے لیے موجودہ جسمانی زندگی کے سفر میں تیاری جاری رہتی ہے جس کی بڑی واضح اور ناقابلِ تردید نشانیاں ہمارے سامنے موجود رہتی ہیں ۔
نہ جانے آپ کے ذہن میں شعور کے رد کا خیال بھی کیسے آیا ۔ابتدائے آفرینش سے آج تک مسلسل تخلیق کے عمل میں جو کچھ بھی نشو و نما پا کر ہمارے سامنے آیا ہے وہ شعور ہی تو ہے جس کی سطح اور اقدار ہر مرحلہِ تخلیق کے ساتھ بلند سے بلند تر ہوتی رہی ہیں ۔ حتیٰ کہ انسانی مرحلہِ تخلیق میں یہ شعوری سطح اب تک کی افضل ترین سطح تک پہنچ گئی، یعنی شعورِ ذات کی خود آگاہ سطح تک، وہ سطح جو آج تک تخلیق کے کسی بھی سابقہ مرحلے میں کسی بھی مخلوق کو ودیعت نہیں ہوئی ۔ یعنی تخلیق کے ہر مرحلے میں شعور اپنی کمتر سطح یا اقدار سے بتدریج بلند تر ہوتا بالآخر انسانی ذات میں خود آگہی کے بلند ترین مرحلے تک آ پہنچا ۔ اور خود آگہی دراصل اپنے تخلیق کار، یا اپنےخالق کے وجود سے آگہی کا درجہ ہوتا ہے۔
جو لوگ بھی صوفیاء کی زندگیوں کے حالات کا علم رکھتے ہیں وہ بھی یہ نکتہ جانتے ہیں کہ ہر صوفی خالق کی تلاش میں اپنی ذات ہی کے نہاں خانوں کی گہرائیوں میں ڈوب ڈوب کر ابھرتا ہے کیونکہ وہ یہ جان جاتا ہے کہ خالق کی صفات ہی مخلوق کا بڑا ورثہ ہوتا ہے اور پیدائش ہی سے اس کی ذات کے اندرون میں ودیعت کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہر خالق، خواہ وہ کوئی بھی ہو، اپنی تخلیق میں خود اپنی صفات و ممکنات ہی کو ظاہر یا بیان کرنا چاہتا ہے۔
یہاں رد البتہ عذابِ قبر کے تصور کا ضرور ہوتا ہے ۔ کیونکہ قرآن کے طول و عرض میں کہیں اس کا ذکر نہیں ہے ۔جسمانی موت، تدفین، پھر شعوری لافانی ذات کی ، جسمانی نظام سے مبرا حیاتِ نو، یعنی حیاتِ آخرت۔ اسے ہی عرفِ عام میں روحانی زندگی کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس پورے نظام یا عمل درآمد میں قبر میں کسی بھی قسم کی کارروائی خارج از امکان ہے کیونکہ انسانی اجسام مرنے کے بعد ٹھکانے لگانے کے لیےقبر کے علاوہ بھی دیگر کئی طریقوں سے فطرت کے سپرد کر دیے جاتے ہیں ۔
رہ گیا برزخ ، تو یہ عمومی فہم کے مطابق اُس وقفے کو کہا جاتا ہے جو جسمانی موت اور شعوری حیات کے از سرِنو ، ایک آئندہ اور بلند تر مرحلے میں ، جاگ جانے کے درمیان ہوتا ہے ۔ اس عالمِ برزخ سے متعلق کوئی نہیں جانتا کہ اس کا وقفہ کتنا ہوگا۔ اور اس وقفے میں انسانی شعور کہاں تنویم کے عمل سے گذرے گا ۔ صرف قیاس آرائیاں ہی کی جاتی ہیں۔اس ضمن میں اسپِ خیال کی برق رفتار پرواز بھی آپ کو کوئی تشفی بخش جواب نہ دے پائے گی، بلکہ اس کی گہرائیوں میں اُترنے کی کوشش سے کئی ثقیل سوالات ذہن میں پیدا ہو جائیں گے جن کے جواب میں آپ صرف اندازے لگا سکیں گے۔ بات تخلیق کے اُسی طریقِ کار تک پہنچے گی جہاں انسان اپنے مشاہدے اور علم کی مدد سے پہنچ چکا ہے کہ، ، ، ، ،،،،،تخلیق کی ایک پست تر سطح پر موجود ہوتے ہوئے ،،،،،،،کوئی بھی مخلوق خود سے برتر مرحلے کی تخلیق کی نوعیت اور اس کے بارے میں کیفیات کا علم حاصل کرنے کی استعداد نہیں رکھتی۔ یعنی اس کی شعوری اقدار اگلے ترقی یافتہ مرحلے کے بلند ترشعور تک پہنچ ہی نہیں پاتیں ۔ یہ بات قطعی قرین عقل اس لیے بھی ہے کہ ہماری عام زندگی میں بھی کوئی اسکول کا طالب علم ،کالج کے علم کی سطح تک، یا کالج کا طالب علم، یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے علم کے بارے میں نہیں جان سکتا ۔ بالکل ایسے ہی جیسے حیوانات تخلیق کے کم تر درجے میں ،کم تر شعوری اقدار کے ساتھ رہتے ہوئے، انسان کے برتر درجے کی کیفیات و حالات کے بارے میں علم حاصل نہیں کر سکتے۔
اب آئیے آپ کی حوالہ زد آیات کا مبسوط ترجمہ کرنے کی کوشش کر لیتے ہیں، شاید کہ سوالات حل ہو جائیں اور ذہن کی گرہیں خود بخود کھل جائیں۔ برسبیلِ تذکرہ، آپ کے ان حوالہ جات سے جو چیز کھل کر اپنا اثبات کر رہی ہے وہ ایک حتمی آنیوالے برتر درجہِ حیات کا وجود ہے، یعنی حیاتِ آخرت کا وجود ۔
آیات : ۲/۱۵۴-۱۵۵
و لا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات،، بل احیاء و لکن لا تشعرون ۔۔ و لنبلونکم بشیء من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات۔۔ و بشر الصابرین ۔
ترجمہ: جو لوگ بھی اللہ کے متعین کردہ مقاصد کی آبیاری کرتے ہوئے[ فی سبیل اللہ] مار دیے جائیں تم لوگ انہیں ہرگز مردہ مت کہا کرو ۔ وہ تو اس کے برعکس ایک ایسے بلند تر مرحلہِ زندگی میں زندہ ہوتے ہیں جس کی کیفیات و ماہیت کا تم اپنے موجودہ مرحلہِ حیات میں شعور نہیں رکھتے ۔
اور یہ ہمارا مقرر کردہ طریقِ کار ہے کہ ہم ضرور تم سب کو تمہاری ارتقائے ذات کی خاطر خوف، بھوک، اموال و افراد میں کمی اور متوقع خوش آئند نتائج سے محرومی جیسی آزمائشوں میں ڈالتے ہیں[لنبلونکم] ۔ پھر جو تم میں سے ان آزمائشوں میں استقامت سے کام لیتے ہیں، انہیں اس کے خوشگوار نتائج کی خوشخبری دے دی جائے۔

آیات: ۱۶/۲۰-۲۱
و الذین یدعون من دون اللہ لا یخلقون شیئا و ھم یخلقون ۔ اموات غیر احیاء ۔ و ما یشعرون ایان یبعثون۔
ترجمہ: اور وہ لوگ جنہیں یہ اللہ کے ماسوا پکارتے ہیں کچھ بھی تخلیق نہیں کر سکتے کیونکہ وہ خود اللہ کے تخلیق کردہ ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو مردے کی مانند ہیں، زندگی کے بغیر ہیں۔ اور وہ یہ بھی شعور نہیں رکھتے کہ انہیں کب حیاتِ نو عطا کی جائے گی۔

۳/۱۶۹-۱۷۰
و لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا۔ بل احیاء عند ربھم یرزقون۔۔۔
ترجمہ: نیز وہ لوگ جو اللہ کے متعین کردہ مقاصد کی تکمیل میں [فی سبیل اللہ] مار دیے گئے انہیں تم لوگ مردوں میں شمار مت کیاکرو ۔ وہ تو اس کے برعکس زندہ ہیں اور اپنے رب کی جانب سے مسلسل حصولِ علم کرتے بلندیوں کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔

آیات: ۲۲/۵۸-۵۹
و الذین ھاجروا فی سبیل اللہ ثم قتلوا او ماتوا لیرزقنھم اللہ رزقا حسنا ۔ و ان اللہ لھو خیر الرازقین ۔ ۔ لیدخلنھم مدخلا یرضونہ۔ و ان اللہ لعلیم حلیم،۔۔۔
ترجمہ: اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالی کے مقاصد کے حصول میں ترکِ وطن کیا، پھر مار دیے گئے یا فوت ہو گئے، بے شک اللہ انہیں بہترین عنایات کے ذریعے نشو ونما کے جانب لے جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ ہی ہے جو بہترین سامانِ نشوونما عطا کرتا ہےاور وہ ضرور انہیں ایسے مدارج میں داخل فرما دے گا جہاں وہ مسرتیں اورتسکینِ کامل حاصل کریں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہی ان مدارج کا علم رکھنے والا اور نرم دل، متین اور بردبار ہے ۔
۔

آیات: ۲۳/۱۲-۱۶
و لقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین ۔ ۔ ثم جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین ۔ ثم خلقنا النطفۃ علقۃ ، فخلقنا العلقۃ مضغۃ ، فخلقنا المضغۃ عظاما ، فکسونا العظام لحما ،ثم انشاناہ خلقا آخر ۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین ۔ ثم انکم بعد ذلک لمیتون ۔ ثم انکم یوم القیامۃ تبعثون۔

[یہاں، دیگر متعدد مقامات کی مانند، انسان کے حیوانی نظامِ زندگی کی تخلیق کے مراحل بیان کئے گئے ہیں ۔ اسے کئی انداز سے بیان کیا جا سکتا ہے ، جس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ آج انسانی علوم کی ترقی نے یہ تمام مراحل آشکار کر دیے ہیں۔]

ترجمہ : اور انسان کے طبیعی یا حیوانی نظام کی تخلیق تو ہم نے مٹی کے خلاصے سے کی ہے ۔ پھر اگلے مرحلے میں ہم نے اسے نطفہ بنایا جو رحمِ مادر کے اندر ٹھہر گیا اور مادہ کے بیضے میں قرار گیر ہو گیا۔ پھر اس نطفے کو ایک لٹکتی ہوئی چیز میں تبدیل کیا، پھر اس علقے کو جنین بنایا۔ پھر اس میں ہڈیوں کا ڈھانچہ ابھاردیا۔ پھر اس ڈھانچے پر گوشت کی تہ چڑھا دی ۔
یہاں تک حیوانی جسم کی تکمیل ہونے کے بعد ہم نے اسےایک بالکل مختلف سطح یا ایک برتر مرحلے کی مخلوق کی صورت میں ایسی حیات عطا کر دی جو حیوانات سے یکسر مختلف ہے [ خلقا آخر]۔ پس دیکھو کہ اللہ کی ذات کیسی مستحکم اور نشوونما دینے والی ہے کہ وہ تخلیق کاروں میں سب سے برتر ہے۔ پیدائش کے اس منفردمرحلے کے بعد تم سب ایک دن لازماْ موت سے ہمکنار ہو جاتے ہو۔ لیکن بعد ازاں ایک بڑے اور خاص قسم کے تخلیقی مرحلے کے قیام پر [یوم القیامۃ]تم سب پھر ایک برتر نوع کی زندگی عطا کر دیے جاوگے ۔
- - - - - -
اہم الفاظ کا مستند لغوی ترجمہ:

[رزق]: ہر وہ عنایت اور عطا جو انسان کے ارتقاء اور نشوونما میں سود مند ہو۔ یہ نشو ونما مادی بھی ہو اور علمی و عقلی بھی۔ خصوصاْ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ۔
[فی سبیل اللہ]: اللہ کے مقاصد کی تکمیل کا راستہ؛ کاطریق ِ کار؛ کا سلسلہ ؛ اس راستے میں ہونے والا عمل یا کارروائِ ۔
[خلقا آخر] : ایک دیگر قسم کی مخلوق جو زیرِ تذکرہ جسمانی یا حیوانی مخلوق سے الگ اور برتر ہو ۔
[یوم القیامۃ]: وہ موعودہ دور یا مرحلہ جب ایک طے شدہ آئندہ تخلیقی مرحلے کا قیام عمل میں آئے جو موجودہ جاری مرحلے کی سطح سے برتر یا بلند تر ہو ۔