اورنگزیب یوسفزئی نومبر ۲۰۱۳


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر5

 

مکہ پر ابرہہ یمنی کا حملہ – ہاتھیوں کی یلغار


سورہ الفیل

 

قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،

چند قریبی اعزہ کی خواہش پر یہ ترجمہ بھی عمومی مشاورت اور اتفاق رائے کی خاطر پیشِ خدمت ہے۔قرآنِ حکیم کی حکمت عالیہ کو جدید سائنسی علوم کی روشنی میں حیطہِ ادراک میں لانا جدید زمانے کا تقاضہ ہے۔ نوٹ فرمائیے کہ ترجمے میں سازشی بنیاد پر ڈالے گئے دیو مالائی عنصر کی کارفرمائی ختم کرتے ہی یہ ترجمہ عقل و منطق و زمینی حقائق کی کسوٹی پر اس طرح پورا اترتا ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا منطقی عالم یا سائینس دان بھی اسکا نہ مذاق اڑا سکتا ہے نہ اسکی وثاقت سے انکار کی کوئی سبیل کر سکتا ہے۔
اس عاجز کی منشاء صرف یہ ہے کہ اللہ کے کلام کی غیر ملاوٹ شدہ اور منزہ شکل کو آلودہ تراجم کی خرافات کے ڈھیر سے اس طریق سے برآمد کر لیا جائے کہ اس کی سچائی جگمگ کرتی سامنے آجائے اور دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جائے ۔ نیز اس میں سے ملاوٹ شدہ معجزاتی اور فوق الفطری جزئیات کی مکمل طور پر تطہیر کر دی جائے۔
ایسا تبھی ممکن ہوا ہے کہ قرآن کے بلند و بالا ادبی اسلوب اور استعاراتی و محاوراتی اصطلاحات کو پوری توجہ سے زیر تحقیق لایا گیا ہے تاکہ لفظی ترجمہ کرنے کی فاش غلطی سے جو فتنے اب تک اٹھ چکے ہیں اس کا سد باب ہو جائے۔ لگ بھگ ایک درجن مستند لغات کی مدد سے اخذ کردہ الفاظ کے معانی متن کے اواخر میں دے دیے گئے ہیں تاکہ اطمینانِ قلب حاصل رہے اور یہ نہ باور کیا جائے کہ ترجمہ ذاتی اغراض کو مدنظر رکھ کر کیا گیا ہے۔
تو آئیے رب العزت کے پاک نام سے ابتدا کرتے ہیں۔

أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ﴿١﴾ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ﴿٢﴾ وَأَرْ‌سَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرً‌ا أَبَابِيلَ ﴿٣﴾ تَرْ‌مِيهِم بِحِجَارَ‌ةٍ مِّن سِجِّيلٍ ﴿٤﴾ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ﴿٥﴾

أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ ﴿١﴾
کیا آپ نے دیکھ نہیں لیا کہ آپ کے نشوونما دینے والے نے ڈینگیں مارنے والے خطا کار کم عقلوں [أَصْحَابِ الْفِيلِ]کے ساتھ کیسا معاملہ کیا۔

أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ ﴿٢﴾
کیا تمہارے رب نے ان لوگوں کے تمام حربوں [كَيْدَهُمْ ] کو خس و خاشاک میں نہیں ملا دیا ۔

وَأَرْ‌سَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرً‌ا أَبَابِيلَ ﴿٣﴾
اس طرح کہ ان کے مقابلے میں سیماب صفت ، جھپٹ کر حملے کرنے والوں کی ایسی جماعتیں [طَيْرً‌ا أَبَابِيلَ ] بھیج دیں ،

تَرْ‌مِيهِم بِحِجَارَ‌ةٍ مِّن سِجِّيلٍ ﴿٤﴾
جو انہیں صحیفے [سِجِّيلٍ ] میں سے حاصل کردہ عقل و دانش کے دلائل [بِحِجَارَ‌ةٍ ]کی بوچھاڑ مار تے تھے [تَرْ‌مِيهِم ]۔

فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ ﴿٥﴾
بالآخر اس انداز میں پیش قدمی کے ذریعے تمہارے رب نے انہیں چبائے ہوئے بھوسے کی مانند کچل کر رکھ دیا۔
۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔

بریکٹوں میں دیے ہوئے الفاظ کے مستند معانی :-

[الْفِيلِ]: فال: غلطی پر ہونا؛ غلط اور کمزور رائے یا فیصلہ کرنا؛ غلط کار؛ خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ۔ اسی سے قبل از اسلام زمانے میں "فیل" یعنی ہاتھی بھی مشتق کیا جاتا ہے جو کہ دراصل فارسی یا آرامی زبانوں سے عربی میں لایا گیا تھا ۔ to be weak-minded, to rebuke, lack of wisdom, give bad counsel, to magnify & aggrandize oneself.
[كَيْدَهُمْ]: ان کی تدبیریں؛ چالیں
[طَيْرً‌ا]: پرواز کرنے والے؛ سیماب صفت، جھپٹ کر حملہ کرنے والے، تار تار کر دینے والے،تتر بتر کرنے والے، صفوں کو درہم برہم کرنے والے؛ منتشر کرنے والے، پھیل جانے، چھا جانے والے ، الطائر: دماغ۔
[أَبَابِيلَ]: گروہ، جماعتیں، جھنڈ، غول
[سِجِّيلٍ]: سجل: بڑی بڑی پانی سے بھری بالٹیاں؛ پکی ہوئی مٹی کے بنے پتھر؛ قانونی ریکارڈ؛ فیصلوں کی دستاویز؛ رجسٹر؛ صحیفہ؛ جو کچھ ان کیلیئے لکھ دیا گیا/فیصلہ کر دیا گیا۔ A Scroll of writing/decrees/ to decide judiciously.
[بِحِجَارَ‌ةٍ]: حجر: کسی چیز سے روکنا، رکاوٹ ڈالنا، پرہیز و اجتناب، پابند کر دینا، مصروف کر دینا، ممنوع کر دینا، عقل و دانش، فہم و سمجھ، دماغی صلاحیتیں، فہم و ادراک کی قوت؛
پتھروں سے احاطہ کر نے سے لیکر عقلِ انسانی کو بھی "حجر" کہا جاتا ہے کہونکہ وہ بھی انسان کو نفسانی بے اعتدالیوں سے روکتی ہے [مفردات راغب] ۔ "ھل فی ذلک قسم ا لذی حجر": کیا یہ چیزیں عقلمندوں کے لیے قسم کھانے کے لائق ہیں [مفردات راغب]۔
[تَرْ‌مِيهِم]: ترمی؛ رمی؛ پھینک کر مارنا؛ بوچھاڑ کرنا؛ برسانا۔

اور اب رواں ترجمہ :
کیا آپ نے دیکھ نہیں لیا کہ آپ کے نشوونما دینے والے نے ڈینگیں مارنے والے خطا کار کم عقلوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا۔ کیا تمہارے رب نے ان کے تمام حربوں کو خس و خاشاک میں نہیں ملا دیا ۔
اس طرح کہ ان کے مقابلے میں سیماب صفت ، جھپٹ کر حملے کرنے والوں کی ایسی جماعتیں بھیج دیں ،
جو انہیں صحیفے سے حاصل کردہ عقل و دانش کے دلائل کی بوچھاڑ مار تے تھے ۔ بالآخر اس انداز میں پیش قدمی کے ذریعے تمہارے رب نے انہیں چبائے ہوئے بھوسے کی مانند کچل کر رکھ دیا۔