اورنگزیب یوسفزئی فروری 2016

قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 28
Thematic Translation Series Instalment No.28

قرآن ایک ضابطہِ سیرت و کردار ، یا "ہدایتِ دسترخوانی"؟؟؟
Quran a Mode of Conduct or
a Guide to Eating???

یہ تحقیقی مضمون قرآن کے انتہائی اہم اور نظریاتی مواد رکھنے والے متون میں کی گئی ملاوٹ اور بگاڑ کی نشاندہی کے مقصد کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا دوسرا مقصد یہ بھی ہے کہ قرآن کے فرمودات سے گوشت خوری کی اشیاء کی تخصیص اخذ کرنے ، اور (پنجے والے اور بغیر پنجے والے) جانوروں کےگوشت اور چربی کی تلاش کرنے والے ہمارے روایت پرست ساتھیوں کی ذہنی حالت کو بلوغت کی جانب ترقی دی جا سکے۔ اس لیےیہاں نہ ذاتیات کا کوئی دخل سمجھا جائے اور نہ ہی کسی کے عقائد پر بے جا حملہ ۔ یہ صرف قدیمی ،فرسودہ اور سازشی قرآنی تراجم کی،،،، جدید ترین علوم اور عقل و منطق کی رُو سے،،،، تصحیح کرنے کا ایک مشن ہے ۔ اور ان تراجم کو قرآن کے حقیقی اور خالص پیغام سے ہم آہنگ کرنے کی ایک جاری کوشش کا حصہ ہے،،،،،، کیونکہ اس عاجز کا مشن یہی ہے کہ آج تک مروج چلے آ رہے طفلانہ اور غیر منطقی تراجم ، اور ان کے ذریعے پھیلایا گیا بگاڑ درست کرنے کی کوشش ہر حال میں زندگی کے ایک نصب العین کی مانند جاری رکھی جائے۔ تاکہ قرآن کا پیغام جب باہر کی دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو ہر کسوٹی پر بے رحمی سے پرکھنے کے باوجود اُس کی حقانیت ، استناد، اور انسانی برادری کے لیے رحمت و منفعت کسی بھی شک و شبہ سے بالا رہے۔ کوئی بڑے سے بڑا دانشور، فلاسفر اور سائنٹسٹ تضحیک اُڑانے کی جرات نہ کر سکے۔

زیرِ تحقیق آیت درج ذیل ہے، جسے ہمارے جانور کھانے کے شوقین ساتھی اپنے موقف کے حق میں نہایت زور شور کے ساتھ پیش کرتے ہیں:-

6/145 : قل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

تمام روایتی اور ترقی یافتہ تراجم کا متن تقریبا باہم متشابہ اور متماثل ہی ہے۔ دیکھیں :-

"اے محمد ان سے کہو کہ جو وحی تمہارے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الّا یہ کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ۔ پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز ان میں سے کھا لے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ نہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقینا تمہارا رب درگذر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے"۔

بحث :
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا یہ ترجمہ قرینِ عقل ہے، یا سہل پسندی اور سازش سے کام لیا گیا ،،،،اور نہایت عامیانہ اور بازاری معانی اختیار کرتے ہوئے قرآن کے عظیم نظریاتی ڈسپلن کے مشن کو مسخ کرنے، یا اس کا مذاق اُڑانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ ہمارے روایت پرست بے عقل تو یہ کہتے ہیں کہ یہاں تو "طاعم" بھی ہے اور فعل "طَعَمَ" بھی موجود ہے، تو اب کھانے کے علاوہ اور کیا سوچا جا سکتا ہے ؟

یہاں ان تمام سطحی تراجم میں کہا یہ گیا کہ،،،،، "کہ دو کہ جو کچھ بھی مجھے وحی کیا گیا ہے،،،اس میں مَیں،،،کسی کھانے والے پر ،،،،،کوئی چیز جو وہ کھاتا ہےحرام نہیں پاتا سوائے۔۔۔"۔ ۔۔۔۔۔ گویا عقل کو رخصت کرتے ہوئے یہ فرض کر لیا گیا کہ وحی ِ الٰہی سیرت و کردار کا ضابطہ نہیں،،،،بلکہ ان حضرات کے لیے کھانے پینے کا ضابطہ لے کر نازل ہوا کرتی تھی ؟؟؟ ۔۔۔یعنی وحیِ الٰہی کی وقعت و منزلت کو ذاتی دست برد کی زد میں لاتے ہوئے، اس کے ضابطہِ ہدایت کو، اس کے بلند و بالا اصول و قواعد کو، روحانی زندگی کی نہایت ارفع و اعلیٰ اقدار کو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو، انسانی فلاح و بہبود و نشوونما کے ایک مربوط نظام کو ، ،،،،سبھی کچھ کو ایک،،،، " ضابطہِ ہدایتِ دسترخوانی" ،،،، کے درجے پر گرا دیا گیا۔

بالفرضِ محال، اگر یہاں کھانے ہی کا ذکر ہے تو غو ر فرمائیے کہ پہلی ہی دو چیزیں وہ ہیں جو اذل ہی سے معدودے چند غربت و فلاکت کے مارے ہوئے غیر مہذب جنگلیوں کی استثنائی حالت کے علاوہ تمام عالم میں اور کوئی نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔یعنی مردار اور خون۔(یاد رہے کہ وہ چند بھوک کے مارے جنگلی تو یہ دونوں اشیاء آج بھی کھاتے ہیں)۔ اب خود ہی سوچیے کہ جن اشیاء کو ساری مہذب و متمدن دنیا میں کبھی بھی از خود درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا ہو،،،،، جو پہلی نظر سے دیکھنے پر ہی نفرت ، کراہت اور امتلاء پیدا کرتی ہیں،،،، انہیں ایک اجتماعی ہدایت کے ضابطے میں کس لیے فوکس میں لا کر ممنوع کرنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے؟؟؟؟۔۔۔ وہ بھی اسلام کی ابتدا کے زمانے کے انسانی معاشرے میں جہاں ایسی کوئی بھی خوراک ہرگز مستعمل نہیں تھی ؟۔۔۔۔۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ رسولِ پاک کو وحی بھی عرب کے ایک خوشحال تجارتی معاشرے میں نازل ہوئی تھی جہاں تہذیب و تمدن سے آشنائی میں کوئی کمی نہیں پائی جاتی تھی۔ شہر مکہ ایک بین الاقوامی تجارتی رُوٹ پر واقع ہونے کے باعث مختلف اقوام و مذاہب پر مشتمل افراد کی آبادی تھی۔جہاں اہلِ کتاب کثیر تعداد میں موجود تھے اور ان سے اجتماعی اور انفرادی میل جول interaction مستقل بنیادوں پر جاری تھا۔ کوئی فاتر العقل ہی یہ تصور کر سکتا ہے کہ وہاں لوگ مردار کھاتے اور خون پیتے تھے،،، اور اس لیے انہیں اس قبیح عادت سے واضح اور حتمی انداز سے منع کیا گیا؟؟؟۔ ۔۔۔۔۔ اور "لحم خنزیر" سے اگر خنزیر نامی جانور کا گوشت ہی مراد لے لیا جائے، جیسا کہ ہمارے یہ بے مغز مترجم زور دیتے ہیں، تو اس کا لازمی مطلب یہ لیا جائے گا کہ خنزیر نامی جانور کے " گوشت کے علاوہ" دیگر اعضاء کا کھانا جائز ہے ۔۔ ۔ ۔ یعنی اس کی چربی، مغز، غدود، ہڈیوں کا شوربہ، سری پائے، وغیرہ ، وغیرہ !!!! ۔۔۔۔آخر یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ ،،،،، اگر کوئی جانور ہی ممنوع کرنا تھا، تو اس کے جسمانی اجزاء میں سے صرف ایک ، یعنی گوشت ہی کا ذکر کیوں کیا گیا؟؟؟؟

پھر یہ کہ "اھل لغیر اللہ بہ" سے مراد "کسی جانور کا ذبیحہ" آخر کس دلیل یا لغت کی مدد سے فرض کر لیا گیا؟ " اُھِلَّ " آواز بلند کرنے کو کہا جاتا ہے،،،،کوئی بھی اعلان کھلے عام کرنے کو،،،،اور یہاں در حقیقت ایک دینی اور نظریاتی جدوجہد کے عین درمیان غیر اللہ کے نام کو بلند کرنے سے منع کیا جا رہا ہے،،،،، یعنی ہر اُس عمل اور سوچ سے جو اللہ کے سوا کسی اور نظریہ پر مبنی ہو۔ ۔۔۔۔۔۔ اور یہ حضرات یہاں گوشت خوری کی علّت سے مجبور ہو کر، اپنی اَوندھی کھوپریوں کے استعمال سے، کسی ذبیحہ کا ذکر لے آتے ہیں ۔ تحریف کے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔۔۔۔آخر کیوں؟؟؟؟۔ دراصل "عورت اور گوشت خوری " کیونکہ مَردوں کے غلبے والے انسانی معاشرے میں عیاشی کے تصور سے جڑے دو ایسے شوق ہیں جو موروثی طور پر نسلوں میں منتقل ہوتے چلے آئے ہیں ،پس نہایت ہنر مندی سے کام لیتے ہوئے قرآن کے احکامات میں ملاوٹ کرنے کی کاروائی میں ، یہ دونوں پُر کشش علّتیں ہر مقام پر داخلِ متن کرنے کی مذموم کوششیں کی گئی ہیں۔ یہاں گوشت خوری کو زبردستی مقدم بنایا جا رہا ہے.۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دیگر مقامات پر النساء،،،، ازواج،،،، المراۃ،،،،، الزانیۃ ،،،،، المشرکۃ،،،،، مومنات،،،،، محصنات،،،،، ما ملکت ایمانکم،،،،، اہل ِ بیت،،،، ، وغیرہ سب ہی اصطلاحات کو ایک ہی لکڑی سے ہانک کر بالجبر"عورت " بنا دیا گیا ہے۔دراصل قرآن کے مقصد اور مشن میں ہوس کاری کو داخل کر دینا بنو امیہ کی ملوکیتی سازش کا ایک بڑا حصہ تھا۔
تو آپ نے دیکھ لیا کہ روایتی ترجمہ، لفظ "طعام" کے استعمال کے باوجود بھی کس قدر لغو اور غیر منطقی ہے!!! لفظ طعام تو ویسے بھی " کھانے" کے ماخوذ کردہ معنی کے علاوہ دیگر بنیادی معانی کا حامل ہے۔ خود ہی مشاہدہ فرما لیں :-
ط ع م: طعم: مصدر – تطعیم : inoculation, vaccination, grafting; rejuvenation, regeneration by taking in new elements, to inlay or equip (with ivory, wood, etc....)
ھو رجل لا یطعم ؛ He is a man who will not become well disciplined, in whom that which should improve him will not produce an effect,,,and who will not become intelligent.
یعنی انجکشن کے ذریعے جسم میں کچھ داخل کر دینا؛ کچھ چیز اندر پلانٹ یا نصب کر دینا، حیاتِ نو اس طرح عطا ہو جانا کہ کچھ نئے عناصر کا حصول ہو گیا ہو، اور ان کے ذریعے سنوار دیا گیا ہو یا آرائش و زیبائش کر دی گئی ہو ۔ "ھو رجل لا یطعّم" سے مراد وہ آدمی ہے جو کبھی ضابطے کے نیچے آ کر منظم نہیں ہوتا، جس میں وہ تعلیم جو اس کو ترقی عطا کرے ، کوئی اثر نہیں پیدا کرتی،،،جو علم و دانش والا نہیں بن پاتا۔

کیونکہ ہمارے روایت پرستوں کے پاس ہر قرآنی لفظ کا ایک ہی معنی ہوتا ہے،،،وہ جو انتہائی عامیانہ اور بازاری مفہوم دیتا ہو،،، اور "طعام " سے بھی یہ بے چارے صرف "کھانا" ہی اخذ کرنے کے قابل ہیں،،،،،اس لیے آئیے ان کے گوشت خوری کے جنون اور ہوس کو خیر باد کہتے ہوئے،،،، اب ایک جدید ترین علمی و عقلی ترجمے کا مطالعہ کر لیتے ہیں، جس کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا ۔ آیتِ مبارکہ یہ ہے :-

6/145: قل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
ترجمہ:
"اے نبی انہیں بتا دو کہ جو کچھ میری جانب وحی کیا گیا ہے اس کی رُو سے میں کسی بھی حصولِ علم و دانش کرنے والے (طاعم)کے لیے اس علم و تربیت و قابلیت میں جو وہ حاصل کرتا ہے (یطعموہ)کچھ بھی ممنوع نہیں پاتا سوائے اس کے جو اس کی قوتِ عاقلہ کو زائل کر دینے والا ہو (المیتتہ- - مفرداتِ راغب)، یااس کو ایک بہت ہی غیر شائستہ اور غیر مہذب رویہ کا حامل بنا دے (دما "مسفوحا")، یا وہ کسی مکار اور بدطینت انسان (خنزیر) کے ساتھ قربت کا تعلق استوارکرے (لحم)، کیونکہ یہ ایک ایسی ناپاک اور غیر اخلاقی روش (رجس او فسق)ہے جس کے ذریعےغیر الٰہی نظریات کی آواز بلند ہوتی ہے ۔ البتہ جس سے ایسا کچھ اضطراری حالت میں سرزد ہو جائے، بغاوت اور سرکشی کی بنا پر نہ ہو، تو بیشک آپ کا پروردگار ایسی صورت میں سامانِ تحفظ اور رحمت عطا فرما دیتا ہے۔

کھانے پینے کے شوقین حضرات نے قرآن کو اپنے اس شوق میں ملوث کرنے کے لیے بہت زور لگایا، اور اس کوشش میں ایک اور قرآنی متن پیش کیا گیا : ۔۔۔۔ 5/75: "کانا یاکلان الطعام"،،،، ۔ فرمائش کی گئی کہ اس کا ادبی اور استعاراتی ترجمہ کیسے کریں گے۔ یہاں سے تو "اکل" اور "طعام" کو صرف "کھانا" ہی ثابت کیا جا سکے گا۔ بہر حال ثابت نہیں کیا جا سکا،،،،،، کیونکہ یہی فقرہ بازاری زبان کی جگہ علمی و ادبی زبان میں اس طرح ترجمہ کیا جائیگا ،،،اور لغات اور زبان دانی کے اصولوں کے عین مطابق ہوگا :- "وہ دونوں علم و دانش حاصل کیا کرتے تھے "!۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ یہ کہنا تو از حد حماقت پر مبنی ہے کہ وہ "کھانا کھایا کرتے تھے"، ،،،،کیونکہ ہر انسان یا بشر کھانا کھانے کے لیے طبعی طور پر اذل سے اپنی جبلی ضرورت کے تحت مجبور ہے۔ اُس کی حیوانی زندگی اس عمل سے جڑی ہے۔

درست اور مستند ترجمہ آپ کے گوش گذار کر دیا گیا ہے ۔ اب جو چاہے قرآنی احکامات کے باطن سے زبردستی کھانے پینے کا معنی اخذ کرتا پھرے کہ آج یہی ہماری حیوانی زندگی کا،،،،، خود ہمارا ہی متعین کردہ،،،،، نصب العین ہے،،،، اور جو چاہے اس الہامی ماخذ سے تحصیلِ علم کی اعلیٰ اقدار کی وہ ہدایت حاصل کرلے جنہیں قرآن میں درحقیقت ہماری روحانی یا شعوری ذات کے ارتقاء کے لیے مقصود و مطلوب قرار دیا گیا ہے۔یہ اس لیے کہ انسان کی شعوری ذات کا ارتقاء اُس کے حصول ِ علم اور مسلسل افزائشِ علم سے ہی ہوتا ہے۔ یہی شعوری ارتقاء ہم سب انسانوں کی آخرت کا سامان ہے۔ لیکن ہر ساتھی اپنی تعلیم بقدر اپنے ظرف کے حاصل کیاکرتا ہے، نیز بقدر اپنی توفیق کے، اور اپنی شعوری سطح کے۔ اس حقیقت کا اثبات بہر حال اپنی جگہ قائم و دائم ہے کہ ہر انسان سوچ و فکر میں دوسرے کی مثل نہیں ہوتا کیونکہ ہر انسان کی ارتقائی سطح مختلف و منفرد اور اُسی کی ذات کے ساتھ خاص ہوتی ہے۔اسی لیے یہ عاجز کبھی اپنی تحریر کے ساتھ اتفاقِ رائے پر اصرار نہیں کرتا۔

قرآن البتہ ایک کھانے پینے کا ضابطہ نہیں بلکہ خالق کے اپنے الفاظ میں ایک " دائمی ضابطہِ کردار" (Hudan۔ ھدی")ہے جس کی تعلیم انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے رہن سہن، بود و باش اور خورد و نوش کا خود اپنی راست سوچ کی مدد سے، اپنی مرضی اور اختیار اور اپنے علم و تجربےکی رُو سے فیصلہ کر سکے ۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی کھانے کو حلال اور حرام قرار نہیں دیتا ۔ جہاں کہیں "خمر" کا ذکر آیا ہے ، جسے تراجم میں شراب بنا دیا گیا ہے، وہاں بھی اس کا مطلب کوئی ڈرنک نہیں ہے۔ بلکہ طاقت، اقتدار یا مال و دولت کا نشہ ہے۔ قرآن میں کھانے پینے کی احکامات کا آنا یوں بھی غیر منطقی ہے کیونکہ انسان جب سے اس زمین پر پیدا ہوا ہے، کسی تلقین یا ہدایت کے بغیر کھا اور پی رہا ہے کیونکہ یہ اس کے طبعی جسم کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کے لیے اسے کسی کی تاکید یا ہدایت کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔وہ نقصان دہ چیزیں خود ہی ترک کر دیتا ہے۔ صدیوں کا تجربہ اور روز افزوں افزائش پذیر علم اُس کی راہنمائی کرتا ہے۔

اب درج بالا مضمون کے بعد اس کے ذیل میں آنے والی آیت کا ترجمہ بھی ضروری ہو جاتا ہے، ورنہ فورا کہا جائیگا کہ اس کا بھی ترجمہ کریں کیونکہ یہاں تو باقاعدہ نام لے کر گائے اور بھیڑ بکریاں اور ان کی "چربی" کے کھانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں بھی جانور کھانے کا کہیں ذکر نہیں ہے۔

6/146: وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّ‌مْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ‌ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ‌ وَالْغَنَمِ حَرَّ‌مْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُ‌هُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴿١٤٦﴾

تمام جدید و قدیم روایتی تراجم:
"اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیے تھے، اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو اُن کی پیٹھ یا اُن کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے۔ یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا انہیں دی تھی۔ اور یہ جو کچھ ہم کہ رہےہیں، بالکل سچ کہ رہے ہیں۔
بحث :-
یہودیوں کے بارے میں ذکر ہے ،،،اور فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی "سرکشی کی سزا" ہم نے یہ دی کہ ۔۔۔۔۔ان پر "ناخنوں والے جانور" ۔۔۔۔اور "گائے اور بکری کی چربی"۔۔۔ حرام کر دی !!!! ۔۔ اچھا، پھر یہ ہوا کہ " کچھ چربی" حرام کر دی،،،،،، اور "کچھ چربی" حلال بھی کر دی ؟؟؟؟ ۔۔ آفرین ہے صاحب،،، کیا سزا ہے ! غیر مشروط داد دینی پڑتی ہے ہمارے ان زیرکوں اور مدبروں کی "ذہنی صلاحیتوں کی"!!!۔۔۔۔ کیا یہ کسی بھی عقل و دانش کے یا کسی بھی علم و ادب و لسانیات کے معیار پر "سزا" کہلا سکتی ہے ؟؟؟۔۔۔ یقینی طور پر ،،، نہیں۔ ۔۔۔ یہ تو عقل و دانش کی موت ضرور کہلا سکتی ہے! ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا ناخنوں والے جانوروں کی لسٹ بنا لی جائے اور دیکھ لیا جائے کہ اس میں نہ تو بکری، بھیڑ، دنبہ وغیرہ آتا ہے اور نہ ہی گائے بھینس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہی دونوں قسم کے جانور عموما" کھائے جاتے ہیں !۔۔۔۔۔ تو پھر سزا کیا ہوئی؟؟؟ اگر مقصد گوشت خوری بند کرنا تھا،،،تو وہ تو ہرگز بھی بند نہ کی جا سکی!!!۔۔ اگر کچھ آپ کی عقل میں آتا ہے تو اس عاجز کے علم میں بھی اضافہ کریں !۔۔۔میری ناقص عقل میں تو یہ سزا نہیں ،،،،ایک مذاق،،،، ہے ۔ آپ اتفاق کریں گے کہ ،،،،،ترجمہ کرنے والوں نے مسلمان کا ، قرآن کا ، اور خود اپنا مذاق بنایا ہے ۔ اور ایسے ترجمے کو بند آنکھوں سے ماننے والوں، اور اسے آگے بڑھانے والوں نے بھی اپنا ہی مذاق بنایا ہے ۔سوال وہی دیرینہ ہے کہ کیا یہ بے سر و پیر ترجمہ آپ باہر کی دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں؟؟؟ ۔۔اور اگر کرتے ہیں تو کیا دانشمند اور بال کی کھال نکالنے والی دنیا کو اس کی وجہ سے آپ کی تضحیک اُڑانے سے باز رکھ سکتے ہیں؟؟؟

آپ اتفاق کریں گے کہ یہ کسی سزا کا ضابطہ نہیں بلکہ کسی قصائی کو ذبح کے فن کی باریکیاں سکھائی جا رہی ہیں۔ "پیٹھ سے لگی ہوئی چربی"،،،،"آنتوں سے لگی ہوئی چربی"،،،،،"ہڈی سے لگی رہ جانے والی چربی"؟؟؟ کسی عطائی یا سنیاسی کے جنسی طاقت کے نسخوں میں ہی ایسی نادر و نایاب چیزوں کا دستیاب کرنا اور استعمال اتنی باریک تفصیل سے بتایا جا سکتا ہے !!! اس ناچیز کی رائے میں تو اللہ کی کتاب سے اس پست سطح اور اس انداز کا استنباط کرنا ، اس کی حرمت و وقعت پر اور اس کے بلند مقام پر حملے کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔ ایسے تراجم کرنے والوں کی طفلانہ ذہنیت پر استغفار پڑھنا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ان کے لیے عفو اور رحمت طلب کی جانی چاہیئے۔

تو آئیے دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل پر دراصل کیا کیا چیز سرکشی کی سزا کے طور پر حرام یا ممنوع کر دی گئی تھی۔

جدیدترین قرینِ عقل ترجمہ :-
6/146: وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّ‌مْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ‌ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ‌ وَالْغَنَمِ حَرَّ‌مْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُ‌هُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ ﴿١٤٦﴾
"اور اہلِ یہود پر ہم نے ہر وہ چیز ممنوع کر دی تھی جو "ذی ظفر" تھی ،،،، یعنی جو فائدے، ملکیت، غلبے یا فتح کے حصول کی حامل (ذی ظفر) تھی۔(یعنی بالفاظِ دیگر، مکمل سکوت، عاجزی اور انکساری اور سادگی کی روش نافذ کر دی گئی تھی) ۔ اور مال و اسباب کی فراوانی (و البَقَرِ) پر اور مشکلات کے بغیر حاصل کیے گئے مالِ غنیمت اور بڑے ریوڑوں (و الغنم) کی نسبت سے ہم نے ان پر ان دونوں املاک پر بے جا غرور، اکڑ اور تکبر کرنا (شحومھما) بھی حرام کر دیا تھا ،،،سوائے اُس ضروری تقاضے کے جو ان دونوں املاک کے منظرِ عام پر ظاہر ہونے سے پیدا ہو جا یا کرتا ہے(ما حملت ظہورھما) ،،،،، یا ان میں بڑھوتری اور اضافہ کے وقوع پذیر ہونے (الحوایا) کے دوران سامنے آجاتا ہے ، یا جو بھی دیگر انداز یا طریقہ کار اس بارے میں کسی فیصلے، ارادے کے ساتھ (بعظم) باہم اشتراک سے طے کر لیا گیا ہو (اختلط)۔ یہ تھا جو ہم نے ان کی سرکشی اور نافرمانی کے بدلے میں اُن پر نافذ کیا۔ اور ہم لازمی طور پر اپنی وعید کو پورا کرتے ہیں۔"

اور اب تمام مستند معانی ملاحظہ فرما لیں تاکہ اِس جانب سے کسی ذاتی ملاوٹ کا شائبہ بھی باقی نہ رہے۔نہ ہی قرآنی الفاظ سے ایک انچ بھی اِدھر یا اُدھر ہونے کا شبہ باقی رہے۔
Za-Fa-Raظفر: = to claw or scratch with a nail. zafira - gain possession, attain, overcome/victorious/succeed. zufur/thufur - claws/talon/nails/clutch. azfara - give victory.
Ba-Qaf-Ra بقر؛ البقر : =Slit, ripped, split cut or divided lengthwise, Opening, laying open, widening; Revealing (e.g. story, or an animal's insides)
Inquiring to the utmost after sciences or knowledge
Being astonished, amazed, stupefied at seeing something or confounded, confused, perplexed, tired or fatigued, weary or jaded
Ox, bull and cow (bovine genus) both domesticated and wild
A species of grape that is large, black and round and a species of plum in Palestine; Owner or possessor of oxen/bulls/cows; A strong staff/stick (e.g. for driving herds);
A sedition, discord or dissention that severs society, corrupts religion and separates men, or something wide spreading/reaching and great
Abundance of wealth/commodities
Gh-Nun-Miim غنم؛ الغنم: = obtained, got, took (usually in reference to spoils or booties); acquisition without difficulties, succeed without trouble, regaining, sheep or goats collected together, numerous flock.
Shiin-Ha-Miim شحم؛ شحوم: = to live or feed with fat, fats/salts/pulp, fleshy part.بے جا غرور، جھوٹی شان، اکڑ، اکڑفوں، تکبر، ہیکڑی، دھاندھلی shuhum n.m. (pl. of shahm) 6:146,, LL, V4, p: 237, 238 ## http://ejtaal.net/aa/#q=shHM
Za-ha-Ra ظہر: = to appear, become distinct/clear/open/manifest, come out, ascend/mount, get the better of, know, distinguish, be obvious, go forth, enter the noon, neglect, have the upper hand over, wound on the back.
zahara - to help/back/support in the sense of collaboration.
Ha-Waw-Ya (Ha-Alif-Ya) حوی؛ حوایا: = To be or become dark green or dark red or brown or black and dried up by reason of oldness. To collect/bring/draw/gather a thing together, grasp a thing, get or gain possession of a thing, take possession of a thing, hold a thing within ones grasp or possession, possess a thing, comprise or comprehend or contain something, to turn a thing around, to wind a thing, assume a round or circular form, to coil, to make a small watering trough or tank for ones camels, to have or assume a roundness or circularity [or the state of being coiled].
ahwa n.m. comp. 87:5; hawaya n.f. pl. 6:146: Lane's Lexicon, Volume 2, page: 314, 315 ## http://ejtaal.net/aa/#q=7wy
Kh-Lam-Tay خلط؛ اختلط: = To mix/intermingle/incorporate/blend, put together with another thing, confuse/confound/disorder, to perplex or disturb, to have intercourse (i.e. a man with his wife, or with a woman), to penetrate into [ TA - khalthu ash-shaybu (the arrow penetrated into him) ], to infect or pervade, associate/converse, become intimate with, enter into a confederacy/league/compact/covenant, good natured/disposition.
Ayn-Zay-Miim عظم: = to resolve, determine, decide, propose, carry out a resolution, set one's heart upon, fixed determination.