اورنگزیب یوسفزئی اپریل 2015

سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر (2۱)
اصحابِ کہف و اصحابِ رقیم
سورۃ الکہف سے ماخوذ

قرآن کے موضوعاتی تراجم کے جاری سلسلے کی یہ ایک اور کوشش ہے جس کی اساس عقلیت پر مبنی جدید ترین علوم اور انسان کے شعوری ارتقاء کی موجودہ بلند ترین سطح پر رکھی گئی ہے ۔ قرآن میں ملاوٹ کردہ اسرار و افسانے کے عنصر کی تطہیر کی کوشش کی گئی ہے۔ اور قرآنی تعلیمات کے مجموعی پیغام سے،جو ایک اعلیٰ انسانی قدروں پر مبنی سیرت و کردار کی تعمیرکا نقیب ہے، مطابقت قائم رکھنے کو راس المال ٹھہرایا گیا ہے۔ اس مرتبہ موضوع "اصحاب الکہف اور الرقیم" کا وہ واقعہ ہے جو قرآنِ کریم کی سورۃ الکہف میں مرقوم ہے، اور جسے کرشماتی رنگ دینے کی سازش کی گئی ہے۔

افسانوی تراجم و تفاسیر میں مذکور بے بنیاد محیر العقول واقعات:
نوجوان مجاہدین کی جماعت کا کسی نامعلوم غار میں پناہ لینا۔ کسی خزانے کا ہمراہ ہونا۔ سینکڑوں سال خوابیدہ رہنا۔ سورج کا انہیں پریشان کیے بغیر "دائیں بائیں سے" گذر جانا، سونے کے دوران اللہ کا اُن کے پہلو بدلتے رہنا، "کتے" کا بھی سینکڑوں سال چوکیداری کرنا، لوگوں کا "کتے کے خوف سے" ڈر کر بھاگ جانا، بالآخر حالات بدل جانےپر بیدار ہوجانا۔ قدیمی"سکے" دے کر ساتھی کو "کھانا" لانے کے لیے بھیجنا ۔ شہر کے لوگوں کا ان کی یاد میں مسجد یعنی عبادت گاہ تعمیر کرنا، وغیرہ ۔

عیسائیت کا پسِ منظر:
سات (7)سونے والوں کی یہ دیومالائی رنگ میں رنگی ہوئی کہانی دراصل اپنا ماخذ عیسائی مذہبی کہانیوں میں رکھتی ہے جواُس دور سے تعلق رکھتی ہیں جب عیسائی مذہب ابھی سرکاری طور پر قبولیتِ عام کا درجہ حاصل نہ کر پایا تھا اور عیسائیت کے پیروکاروں اور مبلغین کو رومن سلطنت کے جبر و استبداد کا سامنا تھا۔ اپنی نوعیت کے پیش نظر یہ کہانی اُن کے ہاں معجزات میں بھی شامل کی جاتی ہے اور قریب ترین روایات کے مطابق یہ رومن شہنشاہ ڈیسیس (Decius)کے عہد میں سن 250 عیسوی میں شہر ایفی سس (Ephesus)کے پرجوش اور صالح عیسائی (یعنی مومن) نوجوانوں کے ایک گروپ کی جدو جہد کی کہانی ہے۔ زیادہ تر بنیادی ماخذات شامی (Syrian) اصل و بنیاد رکھتے ہیں ۔ عیسائی سینٹ، گریگری (Gregory of Tours) نے اس کہانی کو اپنی چھٹی صدی میں مرتب کیے مجموعہِ معجزات کے ذریعے پوری عیسائی دنیا میں مقبول عام کیا ۔ بعد ازاں آنے والے عیسائی مذہبی لکھاریوں نے بوجوہ اس واقعے میں مزید افسانوی رنگ کا اضافہ کیا ۔ نیز اس وقوعے کا مقام اور اس کی تفصیلات میں بلا روک ٹوک ترمیمات کی گئیں اور ہر مرتبہ کچھ مزید مبالغہ آرائیوں سے کام لیا گیا۔ قرآن میں اسی کہانی کی بگاڑی ہوئی افسانوی شکل کو ملاوٹ سے پاک اور وضاحت سے بیان اس لیے کیا گیا کہ ہمارے رسولِ کریمﷺ کی اس کے متماثل مشنری جدوجہد میں یہ ایک ہمت افزا اور سبق آموز واقع کے طور پر سامنے لایا جائے۔

مسلم مفسرین کی ملاوٹ:
لیکن وائے افسوس ، قرآن کے مفسرین نے بھی اُسی غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس مثالی واقعے کی تمام عقلی اور دینی جواز و بنیادکو پھر ایک بار افسانوی اور معجزاتی لبادے میں لپیٹ کر ایک غیر عقلی اور فوق الفطرت روپ عطا کر دیا ۔ حالانکہ قرآن سے زیادہ خوش اسلوب اور روشن اندازِ بیان اور کس کا ہو سکتا تھا، اگر صرف اُس کے پیش کردہ عربیِ معلّیٰ کے بلند ادبی و علمی درجے کو پیش نظر رکھ کر تفہیم کی جاتی اور،،،،،یا پھر،،،، ، نیتوں میں فتور نہ ہوتا ۔

جدید عقلی و علمی ترجمے کی مہم:
تو آئیے اب اس واقعے کا ، قرآن کے عظیم ادبی استعاراتی اسلوبِ بیان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، عقلی اور منطقی نچوڑ پر مبنی تحقیقی ترجمہ سامنے لانے کی ایک کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں اب تک کی گئی اُن معدودے چندہم عصروں کی جدید عقلی کاوشوں کو بھی زیرِ مطالعہ لایا گیا ہے جنہوں نے مسخ کردہ افسانوی تراجم سے گریز کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ البتہ نہ تو قرآنی متن کا مافی الضمیر کامل طور پر واضح کر سکے اور نہ ہی ایک مکمل ذہنی اور روحانی آسودگی پیدا کرنے والا ، سیاق و سباق سے مربوط ،آسان فہم ترجمہ پیش کر سکے۔ البتہ اُن کی ایک نئی جہت میں کاوشوں اور جذبوں کو قابلِ قدر گردانا جائیگا ۔ نیز جو بھی مواد اس سلسلے میں دستیاب ہو سکتا تھا اُس سے ، ایک کڑے خالص عقلی و علمی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ،بلحاظِ صحت و درستگی، استفادہ حاصل کیا گیا ہے ۔

یہ ترجمہ قرآن کےایک جزء کو اس کے خالص حقیقی معانی میں آشکار کرنے کی ایک جدید اور ترقی یافتہ کوشش ضرور ہے، لیکن اسے "حرفِ آخر" یا "قولِ فیصل" وغیرہ، یا اسی قماش کی کوئی دیگر چیز، ہرگز قرار نہیں دیا گیا ۔ قرآنی تراجم میں خالص علمی تحقیق کرنے والے فاضلین کو دعوتِ عام ہے کہ اپنی قیمتی آراء سے آگاہ فرمائیں۔ کوئی بھی واضح غلطی نظر آئے تو باوثوق سند کے ساتھ تصحیح فرمائیں۔ انتہائی شکر گذار رہوں گا۔ کسی بھی سہو و خطا کی تمامتر ذمہ داری بلا جھجھک قبول کرتا ہوں۔

قرآنی سیاق و سباق:
سب سے قبل واقعے کا پسِ منظر جو آیات 1 سے 8 تک محیط ہے ، قرآن کی خصوصیت کے باوصف نفسِ مضمون سے جڑا ہے اور وجہِ تحریر سے آگاہ کر رہا ہے:-

18/1-3 : الحمد للہ الذی انزل علیٰ عبدہ الکتاب و لم یجعل لہ عوجا (1) قیما لینذر باسا شدیدا من لدنہ و و یبشر المومنین الذین یعملون الصالحات ان لھم اجرا حسنا (2) ماکثین فیہ ابدا (3)۔

ترجمہ: تعریف ہے اللہ کے لیے جس نے اپنے بندے پر ایک مخزونہِ علم نازل کیا جس کے ذریعے وہ اپنے بندے کےراستے میں کوئی مشکل، الجھاؤ یا کجی باقی نہیں چھوڑتا ۔ یہ استحکام بخشنے والا علم اس لیے ہے کہ پیش آگاہ کیا جائے ُ اس شدید عذاب کے بارے میں جو اللہ کی جانب سے آنے والا ہے اور اُن ایمان لانے والوں کو بشارت دی جائےجو اصلاحی اعمال سرانجام دیتے ہیں کہ ان کے لیے خوبصورت اجر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اسی کیفیت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

18/4-8: و ینذر الذین قالو اتخذ اللٰہ ولدا (4)۔ ما لھم بہ من علم و لا لآبائھم۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم۔ ان یقولون الا کذبا (5)۔ فلعلک باخع نفسک علیٰ اثارھم ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث اسفا (6)۔ انّا جعلنا ما علی الارض زینت لھا لنبلوھم ایھم احسن عملا (7)۔ ا انّا لجاعلون ما علیھا صعیدا جرزا (8)۔

اور پیش آگاہ کیا جاتا ہے اُس خاص گروہ کو جو یہ موقف رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا یا جانشین ٹھہرایا ہے۔دراصل وہ اور ان کے اکابرین سب علم وآگہی سے محروم ہیں۔ یہ ایک بڑا غلط کلمہ ہے جو ان کی زبانوں سے نکلتا ہے۔ یہ سب جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں بولتے۔ تو اے نبی ، اگر وہ لوگ اس کلام پر ایمان نہیں لاتےتم کیوں تاسف کے ساتھ ان کی باقیات و روایات پر اپنی ذات کو پریشان کرتے ہو۔ دیکھو کہ ہم نے زمین پر جو کچھ بھی اس قسم کا منفی اور مثبت تشکیل کیا ہے وہ سب اس زمین کو انسانی زندگی کے مخصوص لوازمات سے مزین کرنے کے مقصد سے کیا ہے تاکہ ہم انسانوں میں سے ہر ایک کو ارتقائے ذات کا موقع دیتے ہوئےحسین اعمال کے پیمانے پر آزما لیں ۔ اور جو کچھ بھی یہاں وجود رکھتا ہے اسے ہم بالآخرضرور ایک بڑے بلند پیمانے کی تباہی کے ذریعے فنا کے گھاٹ اتار دیں گے۔

18/9: ام حسبت ان اصحاب الکھف و الرقیم کانو من آیاتنا عجبا (9)۔

اگر تم نےبھی مذکورہ بالا گروہ کی مانند یہ قیاس کیا ہے کہ سابقہ زمانے میں ہجرت کر کے اللہ کی تعلیمات میں پناہ لینے والوں (اصحاب الکھف) اور ان کے مقابلے میں معاشرے میں صاحبِ اقتدار اور بلندحیثیت والوں (الرقیم) کے مابین کشمکش کی قدیمی کہانی ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب انگیز یا حیران کن نشانی تھی ، توایسا نہیں ہے(9) ۔

18/10-12: اذ اوی الفتیۃ الی الکھف فقالو ربّنا آتنا من لدنک رحمۃ و ھیّی لنا من امرنا رشدا (10)۔ فضربنا علیٰ آذانھم فی الکھف سنین عددا (11)۔ ثمّ بعثناھم لنعلم ایُّ الحزبین احصیٰ لما لبثوا امدا (12)۔

واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب اُن بہادروں نے اللہ کی تعلیمات کی جانب پناہ لی تو انہوں نے بھی یہی آرزو کی تھی کہ اے ہمارے رب ہم پر اپنی جانب سے ہماری ذات کی نشوونما کا سامان عطا فرما (رحمۃ) اور ہمیں ہمارے مقاصد کی تکمیل کے لیے دانش و ہدایت فراہم کر دے(10)۔ اس پر ہم نے کئی سال تک ان کی سماعتوں کو اپنی تعلیمات کے بیان و حصول کے لیے کھول دیا ، وقف کر دیا(11)۔ بعد ازاں ہم نے انہیں ان کی تبلیغی مہم پر مامور کر دیا (بعثناھم )، تاکہ ہمیں اس امر کا علم ہو جائےکہ دونوں متخالف جماعتوں میں سے کس کس نے وہ فہم اپنے ذہن سے سمجھ اور محفوظ کر لیا ہے (احصیٰ)جس کے لیے وہ سب ایک طویل مدت تک کشمکش سے گذرے تھے (12)۔

18/13-115 : نحن نقصُُّ علیک نباھم بالحق۔ انّھم فتیۃ آمنو بربھم و زدناھم ھدی (13)۔ وربطنا علیٰ قلوبھم اذ قاموا فقالو ربنا ربّ السّماواتِ و الاَرضِ لن ندعو من دونہ الٰھا ۔ لقد قلنا اذا شططا (14)۔ ھٰؤلاءِ قومنا اتخذو من دونہ آلھۃ۔ لو لا یاتون علیھم بسلطان مبین۔ فمن اظلمُ ممّن افتریٰ علی اللٰہ کذبا (15)۔

ہم تمہیں ان لوگوں کی وہ خبر سنا رہے ہیں جو اصل حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ فی الحقیقت ایک دلیر نوجوانوں کا گروہ تھا جو اپنے پروردگار کی ذاتِ عالی پر ایمان لا چکا تھا اور ہم نے ان کے سیرت و کردار کو بلند کر دیا تھا۔ اور پھر ہم نے ان کی ہمتوں کو اس وقت مزید باندھ دیا جب وہ خم ٹھونک کر کھڑے ہوئے(قَامُوا ) اور اعلان کر دیا کہ ہمارا پروردگار ہی اس کائنات کا پالنے والا ہے ۔ اور کہا کہ ہم اس کے علاوہ کسی اور کو اتھارٹی نہیں مانتے۔ اگر ہم نے اس کے برعکس کہا تو یہ بڑی غلط کاری اور حدود فراموشی ہوگی(14)۔ انہوں نے افسوس کیا کہ دیکھو یہ ہماری قوم ہے جس نے اللہ کو مانناچھوڑ کر دوسروں کو خدا بنا لیا اگرچہ کہ یہ اپنے اس موقف پر کوئی واضح دلیل نہیں لا سکتے۔ پس کون اُن انسانوں سے زیادہ ظالم ہو گا جو اللہ پرجھوٹے بہتان باندھتے ہیں(15)۔

18/16: و اِذ اعتزلتموھم و ما یعبدون الا اللٰہ فآووا الی الکھفِ ینشر لکم ربکم من رحمتہ و یُھیّی لکم من امرکم مرفقا (16)۔

اور اے قوم اگر تم ان سے اور جن کی یہ اللہ کے ماسوا تابعداری کرتے ہیں، ترک تعلق کرلو تو آؤ اللہ کی تعلیمات کی پناہ حاصل کر لو۔ تمہارا پروردگار اپنی رحمت سے تم میں وسعت ، کثرت اور فراوانی پیدا فرما دے گا اور تمہارے مشن میں تمہیں مدد اور رفاقت مہیا کر دے گا۔ (16)

18/17: و تری الشمس اذا طلعت تزاورُ عن کھفھم ذات الیمینِ و اذا غربت تقرضھم ذات الشمالِ و ھم فی فجوۃ منہ۔ ذلک من آیاتِ اللٰہ۔ من یھدِ اللٰہ فھو المھتد۔ و من یضلل فلن تجد لہ ولیّا مرشدا (17)

اور اے نبی تُو دیکھتا ہے کہ اقتدار کا سورج (الشَّمْسَ )جب بھی کبھی بلند(طَلَعَت ) ہوا ، تو دراصل اُن نوجوانوں کی حاصل کردہ انہی الہامی تعلیمات (كَهْفِهِمْ ) سے آراستہ ہونے پر (تَّزَاوَرُ‌ )یمن و سعادت کا حامل (ذَاتَ الْيَمِينِ ) ہو جاتا ہے۔ اور اگر ڈوب جاتا ہے(غَرَ‌بَت ) تو اس لیے کہ اُنہی تعلیمات سے قطع تعلق ہو کر(تَّقْرِ‌ضُهُمْ ) ناپسندیدہ، نفرت انگیز اور شیطان صفت ہو جاتا ہے (ذَاتَ الشِّمَالِ)۔ اور ایسی صورتِ حال میں وہ صالحین (وَهُمْ) اُس سے علیحدگی اور فاصلہ پیدا کرکے دور ہو چکے ہوتے ہیں(فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ)۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی کارفرمائیوں کی واضح نشانیاں ہیں ۔ یعنی فی الحقیقت جسے اللہ کی تعلیمات ہدایت عطا کر دیں پس وہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے ۔ اور جسے اس کی تعلیمات سے دوری گمراہ کر دے پھر اس کے لیے کوئی سمجھانے والا دوست نہیں رہتا۔ (17)

18/18: و تحسبھم ایقاظا و ھم رقود۔ و نقلبھم ذات الیمین و ذات الشمال۔ و کلبھم باسط ذراعیہ بالوصید۔ لو اطلعت علیھم لولّیت منھم فرارا و لملئت منھم رعبا (18)۔

پھر اگر تم یہ خیال کرو گے کہ یہ لوگ یا تو بے کار کر دیے گئے یا مار ڈالے گئے(أَيْقَاظًا )، تو ایسا نہیں ہے، بلکہ ان پر ایک قسم کے خاموش انتظار کی کیفیت (رُ‌قُودٌ)طاری رہی۔ اور دریں اثناء اُن کی قوم میں ہمارا قانون یمن و سعادت (ذَاتَ الْيَمِينِ) اور بدبختی اور ذلالت (ذَاتَ الشِّمَالِ )کی حامل تبدیلیاں پیدا کرتا رہا(نُقَلِّبُهُمْ )۔ اور اس دوران اُن دلیر نوجوانوں کے جذبوں کی شدت اور سخت کوشی پر مبنی جدوجہد (كَلْبُهُم) وسعت پذیر رہی (بَاسِطٌ ) اور ان کا مشن دونوں جانب اپنے بازومضبوطی کے ساتھ دراز کرتا رہا (ذِرَ‌اعَيْهِ بِالْوَصِيدِ )۔ اگر تم اس وقت کہیں اُن نوجوانوں کا سامنا کرتے ، تو ان کے رعب و جلال کے مارے(رُ‌عْبًا ) اُن سے رُخ موڑ کر(لوَلَّيْتَ مِنْهُمْ ) راہِ فرار اختیار کرتے ۔ (18)

18/19-20: و کذلک بعثناھم لیتساءلوا بینھم ۔ ۔ قال قائل منھم کم لبثتم ۔۔ قالو لبثنا یوما او بعض یوم۔۔قالو ربکم اعلم بما لبثتم فابعثوا احدکم بورقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظر ایّھا ازکیٰ طعاما، فلیا تکم برزق منہ و لیتلطّف و لا یشعرن بکم احدا (19)۔ انّھم ان یظہروا علیکم یرجموکم او یعیدوکم فی ملتھم و لن تفلحو اذا ابدا (20)۔

پھر اسی صورتِ حال کے درمیان ہم نے انہیں اس بات پر مائل کیا کہ وہ اپنے مابین فیصلہ کن بحث مباحثہ کر یں ۔ اس سلسلے میں ان میں سے ایک بولنے والے نے یہ بھی سوال اٗٹھایا کہ تم نے کتنا عرصہ اس جدوجہد کی کیفیت میں گذار دیا۔ انہوں نے غیر یقینی طور پر کہا کہ ہم نے ایک خاص زمانی دور یا ایسے دور کا کچھ حصہ گذار ا ہوگا۔ تب کچھ نے کہا کہ اس بات کو اپنے رب پر ہی چھوڑدو کہ وہ ہی بہتر جانتا ہے کہ تم نے کتنا عرصہ اس جدو جہد کے میدان میں گذار دیا ۔ لیکن اب ایسا کرو کہ تم اپنی اس جماعت میں سے کسی ایک پختہ باشعور جوان کو(بِوَرِ‌قِكُمْ) شہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ وہاں موجود صورتِ حال کا جائزہ لے کر(فَلْيَنظُرْ‌) حالات کا ایک بہترین اور سیر حاصل مطالعہ و ادراک حاصل کرے (أَزْكَىٰ طَعَامًا) اور پھر اسے تمہارے استفادے کے لیے(بِرِ‌زْقٍ) پیش کردے ۔ لیکن اس مہم میں ایسی نرم خوئی اور باریک بینی سے کام لے(وَلْيَتَلَطَّفْ ) کہ وہاں کوئی تم میں سے کسی کے بارےمیں جانکاری حاصل نہ کر پائے (19)۔اس لیے کہ اگر وہ تم پر غلبہ پا لیں گے تو تمہیں سختیوں کا ہدف بنائیں گے۔ یا جبراَ تمہیں اپنے راستے کی جانب لوٹا لیں گے ۔ اور اس صورت میں تم کبھی کامیابی حاصل نہ کر سکو گے۔ (20)

18/21: و کذلک اعثرنا علیھم لیعلموا انَّ وعد اللٰہ حقُّ و انَّ السّاعۃ لا ریب فیھا اذ یتنازعون بینھم امرھم، فقالوا ابنُوا علیھم بنیانا۔ ربھم اعلم بھم۔ قال الّذین غلبوا علیٰ امرھم لنتّخذنّ علیھم مسجدا (21)۔

پھر اس طرح ہوا کہ ہم نے ان کی قوم کو ان کے کارناموں کے بارے میں با خبر بھی کر دیا تاکہ وہ سب یہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے اور یہ بھی کہ فیصلے کی گھڑی کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب وہ آپس میں اپنے ان معاملات پر بحث مباحثہ کر رہے تھے،،، تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ان دلیر نوجوانوں کے اعزاز میں ایک عمارت بنائی جائے۔ انکا پروردگار ہی خوب جانتا ہے جو ان پر گذری ہے۔ پھر ان لوگوں نے جن کی رائے ان کے معاملات میں غالب آ گئی ، کہا کہ ہم تو ان کی تعلیمات کے نفاذ و اتباع کے لیے ایک مرکزِ اطاعت (مَّسْجِدًا) ضرور بنائیں گے۔(21)

18/22: سیقولون ثلاثۃ رابعھم کلبھم و یقولون خمسۃ سادسھم کلبھم رجما بالغیب۔ و یقولون سبعۃ و ثامنھم کلبھم۔۔ قل ربی اعلم بعدّتہم ما یعلمھم الا قلیل۔ ۔ فلا تمار فیھم الّا مراء ظاھرا و لا تستفت فیھم منھم احدا (22)۔
لوگ تو یہ چہ مے گوئیاں ضرور کرتے رہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا، اور وہ یہ بھی کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا اور یہ وہ صرف خیالی نشانہ بازی کرتے ہوئے(رجما بالغیب) کہیں گے۔اور یہ بھی کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ تم انہیں بتا دو کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرا رب ہی صحیح جانتا ہے کہ ان کی تعداد کیا تھی کیونکہ کم ہی ایسے لوگ گذرےہیں جنہیں اُن لوگوں کے بارے میں درست علم ہوگا۔ پس تم اس معاملے میں لوگوں سے بغیر کسی واضح دلیل کے بحث نہ کرو اور نہ ہی ان میں سے کسی سے بھی ان صالح لوگوں کے بارے میں استفسار کرو ۔ (22)۔

18/23-24: و لا تقولن لشیء انّی فاعل ذلک غدا (23)۔ الّا ان یشاء اللٰہ ۔ و اذکر ربک اذا نسیت و قل عسیٰ ان یھدین ربّی لاقرب من ھذا رشدا (24)۔

نیز تمہارے لیے اس واقعے میں یہ سبق بھی ہے کہ کسی بھی بڑی مہم کے بارے میں یہ پیش گوئی نہ کرنا کہ کل میں یہ کام ضرورکر لوں گا(23)۔ بغیر یہ کہے کہ اگر یہ اللہ کی مشیت ہوئی تو ۔ اور اگر تم ایسے معاملات میں کبھی صحیح راستہ بھولنے لگ جاؤ تو اپنے پروردگار کی صفاتِ عالی کو پیشِ نظر رکھ لیا کرو اور کہا کرو، اے کاش ایسا ہو کہ میرا رب مجھے وہ راہنمائی عطا کر دے جو سیدھے راستے سے قریب ترین ہو۔ (24) ۔

18/25-27: و لبثو فی کھفھم ثلاث مائۃ سنین وازدادوا تسعا (25)۔ قل اللٰہ اعلمُ بما لبثُوا ۔ لہ غیب السماواتِ و الارض۔ ابصر بہ واسمع ۔ ما لھم من دونہ من ولیّ و لا یشرک فی حکمہ احدا (26)۔ واتلُ ما اُوحی الیک من کتابِ ربّک ۔ لا مبدّل لکلماتہ و لن تجد من دونہ ملتحدا(27)۔

اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پناہ گاہ (كَهْفِهِمْ )میں تین سو سال یا اس سے بھی نو سال اوپر قیام پذیر رہے(25)۔ تم انہیں کہ دو کہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کتنی دیر قیام پذیر رہے۔ کائنات کی تمام پوشیدہ چیزوں کا علم اس ہی کے پاس ہے۔ وہ یہ سب دیکھتا اور سنتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس اُس کے علاوہ کوئی دوست و سرپرست نہیں ہے ۔ اور وہ یاد رکھیں کہ وہ اپنی اتھارٹی یعنی اختیار و اقتدارمیں کسی کو شریک نہیں کرتا(26)۔ اور پڑھ کر سنا دو جو کچھ کہ تمہاری طرف تمہارے رب کی کتاب میں وحی کیا گیا ہے ۔ اس کے کلمات یا قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اور تم اس کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں پاؤگے ۔ (27)

اب پیش ہے رواں ترجمہ، تسلسل میں کسی دخل اندازی کے بغیر :-

"" تعریف ہے اللہ کے لیے جس نے اپنے بندے پر ایک مخزونہِ علم نازل کیا جس کے ذریعے وہ اپنے بندے کےراستے میں کوئی مشکل، الجھاؤ یا کجی باقی نہیں چھوڑتا ۔ یہ استحکام بخشنے والاعلم اس لیے ہے کہ پیش آگاہ کیا جائے ُ اس شدید عذاب کے بارے میں جو اللہ کی جانب سے آنے والا ہے اور ان ایمان لانے والوں کو بشارت دی جائےجو اصلاحی یا تعمیری کام سرانجام دیتے ہیں کہ ان کے لیے خوبصورت اجر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اسی کیفیت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
اور پیش آگاہ کیا جاتا ہے اُس خاص گروہ کو جو یہ موقف رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا یا جانشین ٹھہرایا ہے۔دراصل وہ اور ان کے اکابرین سب علم وآگہی سے محروم ہیں۔ یہ ایک بڑا غلط کلمہ ہے جو ان کی زبانوں سے نکلتا ہے۔ یہ سب جھوٹ کے سوا اور کچھ نہیں بولتے۔ تو اے نبی ، اگر وہ لوگ اس کلام پر ایمان نہیں لاتےتم کیوں تاسف کے ساتھ ان کی باقیات و روایات پر اپنی ذات کو پریشان کرتے ہو۔ دیکھو کہ ہم نے زمین پر جو کچھ بھی اس قسم کا منفی اور مثبت تشکیل کیا ہے وہ سب اس زمین کو انسانی زندگی کے مخصوص لوازمات سے مزین کرنے کے مقصد سے کیا ہے تاکہ ہم انسانوں میں سے ہر ایک کو ارتقائے ذات کا موقع دیتے ہوئےحسین اعمال کے پیمانے پر آزما لیں ۔ اور جو کچھ بھی یہاں وجود رکھتا ہے اسے ہم بالآخرضرور ایک بڑے بلند پیمانے کی تباہی کے ذریعے فنا کے گھاٹ اتار دیں گے۔
اگر تم بھی مذکورہ بالا گروہ کی مانند یہ قیاس کرتے ہو کہ سابقہ زمانے میں ہجرت کر کے اللہ کی تعلیمات میں پناہ لینے والوں اور ان کے مقابلے میں معاشرے میں صاحبِ اقتدار اور بڑی حیثیت والے لوگوں کی کشمکش کی قدیمی کہانی ہماری نشانیوں میں سے کوئی تعجب انگیز یا حیران کن نشانی تھی، تو ایسا نہیں ہے۔

واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب ان بہادروں نے اللہ کی تعلیمات کی جانب پناہ لی تو انہوں نے بھی یہی درخواست کی تھی کہ اے ہمارے رب ہم پر اپنی جانب سے ہماری ذات کی نشوونما کا سامان عطا فرما اور ہمیں ہمارے مقاصد کی تکمیل کے لیے دانش و ہدایت فراہم کر دے۔ اس پر ہم نے کئی سال تک ان کی سماعتوں کو اپنی تعلیمات کے بیان و حصول کے لیے کھول دیا/وقف کر دیا ۔ بعد ازاں ہم نے انہیں ان کی تبلیغی مہم پر تعینات کر دیا ، تاکہ ہمیں اس امر کا علم ہو جائےکہ دونوں متخالف جماعتوں میں سے کس کس نے وہ فہم اپنے ذہن سے سمجھ اور محفوظ کر لیا ہے جس کے لیے وہ سب ایک طویل مدت تک کشمکش سے گذرے تھے ۔
ہم تمہیں ان لوگوں کی وہ کہانی سنا رہے ہیں جو اصل میں مبنی بر حقیقت ہے۔ وہ فی الحقیقت ایک دلیر نوجوانوں کا گروہ تھا جو اپنے پروردگار کی ذاتِ عالی پر ایمان لا چکا تھا اور ہم نے ان کے سیرت و کردار کو بلند کر دیا تھا۔ اور پھر ہم نے ان کی ہمتوں کو باندھ دیا جب وہ خم ٹھونک کر کھڑے ہوئےاور اعلان کر دیا کہ ہمارا پروردگار ہی اس کائنات کا پالنے والا ہے ۔ اور کہا کہ ہم اس کے علاوہ کسی اور کو اتھارٹی نہیں مانتے۔ اگر ہم نے اس کے برعکس کہا تو یہ بڑی غلط کاری اور حدود فراموشی ہوگی۔ انہوں نے افسوس کیا کہ دیکھو یہ ہماری قوم ہے جس نے اللہ کو مانناچھوڑ کر دوسروں کو خدا بنا لیا اگرچہ کہ یہ اپنے اس موقف پر کوئی واضح دلیل نہیں لا سکتے۔ پس کون اُن انسانوں سے زیادہ ظالم ہو گا جو اللہ پرجھوٹے بہتان باندھتے ہیں۔
اور اے قوم اگر تم ان سے اور جن کی یہ اللہ کے ماسوا تابعداری کرتے ہیں، لا تعلق ہوتے ہو تو آؤ اللہ کی تعلیمات کی پناہ حاصل کر لو۔ تمہارا پروردگار اپنی رحمت سے تم میں وسعت ، کثرت اور فراوانی پیدا فرما دے گا اور تمہارے مشن میں تمہیں مدد اور رفاقت مہیا کر دے گا۔
اور اے نبی تُو دیکھتا ہے کہ اقتدار کا سورج جب بھی کبھی بلندہوا ، تو دراصل اُن نوجوانوں کی حاصل کردہ انہی الہامی تعلیمات سے آراستہ ہونے پر یمن و سعادت کا حامل ہو جاتا ہے۔ اور اگر ڈوب جاتا ہےتو اس لیے کہ اُنہی تعلیمات سے قطع تعلق ہو کرناپسندیدہ، نفرت انگیز اور شیطان صفت ہو جاتا ہے ۔ اور ایسی صورتِ حال میں وہ صالحین اُس سے علیحدگی اور فاصلہ پیدا کرکے دور ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی کارفرمائیوں کی واضح نشانیاں ہیں ۔ یعنی فی الحقیقت جسے اللہ کی عطا کردہ تعلیم ہدایت عطا کر تی ہے پس وہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے ۔ اور جسے اس کی تعلیمات سے دوری گمراہ کر دے پھر اس کے لیے کوئی سمجھانے والا دوست نہیں رہتا۔
پھر تم یہ خیال کرو گے کہ یہ لوگ یا تو بے کار کر دیے گئے یا مار ڈالے گئے۔ جبکہ ایسا نہیں، بلکہ ان پر ایک قسم کے خاموش انتظار کی کیفیت طاری رہی۔ اور ہم دریں اثناء ان کی قوم میں یمن و سعادت اور بدبختی اور ذلالت کے ادوار تبدیل کرتے رہے۔ تاہم ان کے جذبوں کی شدت اور سخت کوشی پر مبنی جدوجہد وسعت پذیر رہی اور ان کا مشن دونوں جانب اپنے بازومضبوطی کے ساتھ دراز کرتا رہا۔ اگر تم اس وقت کہیں اُن نوجوانوں کا سامنا کرتے ، تو ان کے رعب و جلال کے مارے اُن سے رُخ موڑ کر راہِ فرار اختیار کرتے ۔
پھر اسی صورتِ حال کے درمیان ہم نے انہیں مائل کیا/ اکسایا کہ وہ اپنے مابین فیصلہ کن بحث مباحثہ کر یں ۔ اس سلسلے میں ان میں سے ایک بولنے والے نے پوچھا کہ تم نے کتنا عرصہ اس جدوجہد کی کیفیت میں گذار دیا۔ انہوں نے غیر یقینی طور پر کہا کہ ہم نے ایک خاص زمانی دور یا ایسے دور کا کچھ حصہ گذار ا ہوگا۔ تب کچھ نے کہا کہ اس بات کو اپنے رب پر ہی چھوڑدو کہ وہ ہی بہتر جانتا ہے کہ تم نے کتنا عرصہ اس جدو جہد کے میدان میں گذار دیا ۔ لیکن اب ایسا کرو کہ تم اپنی اس جماعت میں سے کسی ایک پختہ باشعور جوان کو شہر کی طرف بھیجو تاکہ وہ وہاں موجود صورتِ حال کا جائزہ لے کر حالات کا سیر حاصل مطالعہ و ادراک حاصل کرے پھر اسے تمہارے استفادے کے لیے پیش کردے ۔ لیکن اس مہم میں ایسی نرم خوئی اور باریک بینی سے کام لے کہ وہاں کوئی تم میں سے کسی کے بارےمیں جانکاری حاصل نہ کر پائے ۔س لیے کہ اگر وہ تم پر غلبہ پا لیں گے تو تمہیں لعن طعن کا ہدف بنائیں گے۔ یا جبراَ تمہیں اپنے راستے کی جانب لوٹا لیں گے ۔ اور اس صورت میں تم کبھی کامیابی حاصل نہ کر سکو گے۔
پھر اس طرح ہوا کہ ہم نے ان کی قوم کو ان کے بارے میں با خبر بھی کر دیا تاکہ وہ سب یہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہوتا ہے اور یہ بھی کہ فیصلے کی گھڑی کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب وہ اپنے مابین ان معاملات پر بحث مباحثہ کر رہے تھے،،، تو کچھ لوگوں نے کہا کہ ان دلیر نوجوانوں کے اعزاز میں ایک عمارت بنائی جائے۔ انکا پروردگار ہی خوب جانتا ہے جو ان پر گذری ہے۔ پھر کچھ دوسروں نے جن کی رائے ان کے معاملات میں غالب رہی ، کہا کہ ہم تو ان کی تعلیمات کے نفاذ و اتباع کے لیے ایک مرکزِ اطاعت ضرور بنائیں گے۔

لوگ تو یہ چہ مے گوئیاں ضرور کرتے رہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا، اور وہ یہ بھی کہیں گے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا اور یہ وہ صرف خیالی نشانہ بازی کرتے ہوئے کہیں گے۔اور یہ بھی کہیں گے کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ تم انہیں بتا دو کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرا رب ہی صحیح جانتا ہے کہ ان کی تعداد کیا تھی کیونکہ کم ہی ایسے لوگ گذرےہیں جنہیں اُن لوگوں کے بارے میں درست علم ہوگا۔ پس تم اس معاملے میں لوگوں سے بغیر کسی واضح دلیل کے بحث نہ کرو اور نہ ہی ان میں سے کسی سے بھی ان صالح لوگوں کے بارے میں استفسار کرو ۔
نیز تمہارے لیے اس واقعے میں یہ سبق بھی ہے کہ کسی بھی بڑی مہم کے بارے میں یہ پیش گوئی نہ کرنا کہ کل میں یہ کام ضرورکر لوں گا۔ بغیر یہ کہے کہ اگر یہ اللہ کی مشیت ہوئی تو ۔ اور اگر تم ایسے معاملات میں کبھی صحیح راستہ بھولنے لگ جاؤ تو اپنے پروردگار کی صفاتِ عالی کو پیشِ نظر رکھ لیا کرو اور کہا کرو، اے کاش ایسا ہو کہ میرا رب مجھے وہ راہنمائی عطا کر دے جو سیدھے راستے سے قریب ترین ہو۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی پناہ گاہ میں تین سو سال یا اس سے بھی نو سال اوپر قیام پذیر رہے۔ تم انہیں بتا دو کہ صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کتنی دیر قیام پذیر رہے۔ کائنات کی تمام پوشیدہ چیزوں کا علم اس ہی کے پاس ہے۔ وہ یہ سب دیکھتا اور سنتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس اُس کے علاوہ کوئی دوست و سرپرست نہیں ہے ۔ اور وہ یاد رکھیں کہ وہ اپنی اتھارٹی یعنی اختیار و اقتدارمیں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اور پڑھ کر سنا دو جو کچھ کہ تمہاری طرف تمہارے رب کی کتاب میں وحی کیا گیا ہے ۔ اس کے کلمات یا قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اور تم اس کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں پاؤگے ۔""
. . . . . .

آخر میں بریکٹ شدہ اہم الفاظ کے مستند معانی، جو 10 عدد لغات میں تحقیق کی مدد سے حاصل کیے گئے ہیں :-

(اصحاب الکھف) : کہف : پناہ ، پناہ گاہ، غار، آسرے کی جگہ، چھپنے کی جگہ، ہجرت کر کے آباد ہونے کا مقام، بچنے، محفوظ ہو جانے کا مقام؛ ایک مددگار شخص ۔
الکہف: ایک خاص پناہ گاہ؛ اللہ کی عطا کردہ پناہ گاہ؛ اللہ کی تعلیمات کے تحفظ و پناہ میں آجانا۔
(الرقیم): رقم: لکھا ہوا، لکھا گیا، کتاب، تحریر، کندہ کیا ہوا کتبہ، عقل و شعور (intelligence)، ستاروں سے سجا ہوا آسمان- - الرقیم : وقت کی ایلیٹ کلاس، صاھبِ اقتدار و اختیار طبقہ۔
(رحمۃ): سامان نشو و نما، رحمت، حفاظت کرنا، مدد کرنا، فائدہ پہنچانا، محبت، نرمی، ترس کرنا، معاف کر دینا، نسبی تعلق، رشتہ داری، عورت کا رحم،وغیرہ۔
(بعثناھم): بعث: جو کچھ بھی بھیجا گیا؛ اکسانا، مائل کرنا، ابھارنا، حرکت میں لانا، تقاضا کرنا، جگانا، اٹھانا، کسی کام پر مامور، تعینات کرنا، وغیرہ۔
(احصیٰ):گننا، اندازہ لگانا، حساب لگانا، احاطہ کرنا، انکار کرنا، ایک چھوٹا پتھر کسی کو مارنا، یادداشت میں محفوظ کر لینا، کسی امر کو اچھی طرح سمجھ لینا، وغیرہ۔
(الشَّمْسَ ): سورج؛ سورج اقتدار کا استعارہ ہے ۔یہاں یہ اسی استعارہ میں استعمال ہوا ہے۔
(طَلَعَت ): طلع: طلوع ہونا، ابھر کر آنا، بلند ہونا، آگے نکل جانا، گذر جانا، وغیرہ
(كَهْفِهِمْ ): ان کی وہ تعلیمات جس کی انہوں نے پناہ و تحفظ حاصل کیا ۔
(تَّزَاوَرُ‌ ): کسی کی جانب مائل ہونا، کسی کی جانب سے رخ بدلنا، مڑ جانا، ایک جانب ہو جانا، چھوٹ بولنا، ملنا، ملاقات کرنا۔
(ذَاتَ الْيَمِينِ): وہ جو یمن و سعادت کا حامل ہو؛ وہ جو راست کردار کا مالک ہو ؛ وہ جو سیدھی جانب چلنے والا ہو۔
(غَرَ‌بَت ): غرب: ڈوب جانا، زوال ہو جانا۔ مغرب کی سمت۔
(تَّقْرِ‌ضُهُمْ ) : ق ر ض : علیحہدہ ہو جانا، دوسری جانب مڑ جانا، قطع تعلق کرنا، چھوڑ کر گذر جانا، خلاف ہو جانا۔
(ذَاتَ الشِّمَالِ): ناپسندیدہ، نفرت انگیز اور شیطان صفت کا حامل ۔بائیں جانب کا رحجان رکھنے والا۔بد قسمتی۔ غیر مبارک۔
(فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ): علیحدگی اور فاصلہ پیدا کرکےاُس سے دور ہو جانا۔ ۔فجوۃ: علیحدگی، وسیع فاصلہ، کشادہ جگہ، طاقت/اقتدار میں نزول، کمی، زوال۔
(أَيْقَاظًا): و ق ظ : وقظ: سخت مار مارنا ؛ کھڑے ہونے یا اُٹھنے کے قابل نہ چھوڑنا؛ مار ڈالنا؛ ہمت، حوصلہ توڑ دینا؛ منجمد، محفوظ کر دینا۔
(رُ‌قُودٌ): ر ق د: رقد: غنودگی، نیند، ساکت/خاموش رہنا، نظر انداز کرنا، قبر، مردہ ہونا۔
(نُقَلِّبُهُمْ ): قلب: تبدیلی کا عمل؛ بدل جانا، واپس ہونا، پچھتاوا اور غم کرنا، مکمل تبدیلی لانا، سمت یا رُخ کی تبدیلی، حالات کی تبدیلی۔
(كَلْبُهُم): ک ل ب: کتا، وحشی جانور، جنون کا شکار ہو جانا، انتہائی سخت اور شدید جذبے کا حامل ہو جانا، غصے میں اُٹھ کھڑا ہونا، سرکشی، غیض و غضب، ضد، تشدد، سخت کوشی، پیاس کی بیماری، پاگل پن، لالچ، وغیرہ۔
(بَاسِطٌ ): بسط: پھیلانا ۔ پھیلا ہوا ۔ دراز کیا ہوا۔
(ذِرَ‌اعَيْهِ): ذرع: ۔ ۔ زراعی: وسیع پیمانے پر پھیلانا، طاقت، پیمانہ، طول، اگلے پیر، دونوں بازو، ذرائع، قابلیت/اہلیت، حدود۔
(بِالْوَصِيدِ ): وصد: تیز، مضبوط، اپنی جگہ قائم رہنا، کھڑے ہونا، وسائل کا اکٹھا کرنا، مخزن، سٹور تعمیر کرنا۔
(بِوَرِ‌قِكُمْ) : ورق : کاغذ کا شیٹ، کتاب کا کاغذ، دستاویز، پتے، جوبن اور تازگی، خوبصورتی، چاندی، چاندی کا سکہ، جوان اپنے شباب پر، ایک جماعت کے جوان لوگ۔
(فَلْيَنظُرْ‌) : نظر : وہ دیکھے، تجزیہ کرے، مطالعہ کرے، ادراک و معرفت حاصل کرے۔
(أَزْكَىٰ طَعَامًا): حالات کا ایک بہترین اور سیر حاصل مطالعہ و ادراک ؛
طعام: کھانا، حاصل کرنا، انجکشن لگوانا، علم دینا، علم سے آراستہ کر دینا۔
ازکی: زکو؛ زکیٰ: بھرپور علم، طاقت، نشوونما رکھنے والا۔ ترقی یافتہ، خوشحال، بھرپور، خالص، سچائی، فراوانی، درست حالت میں ہونا، ٹیکس کے واجبات۔
(بِرِ‌زْقٍ): ر ز ق : پیش کردیا، فراہم کر دیا، عطا، کیا، انعام، تحفہ، حصہ، مہیا کرنا، بہم پہنچانا، گذر اوقات کے ذرائع عطا کرنا۔
(وَلْيَتَلَطَّفْ )؛ ل ط ف : نرم روی، لطیف انداز، شائستگی، شانداری، مہربانی، عمدگی، باریک بینی، تکلیف میں خیال کرنا/آرام دینا۔ تحفہ دینا، نرمی، نزاکت۔
(رجما بالغیب):
رجم: قیاس آرائیاں کرنا؛ غلط اندازے لگانا؛ پتھر مارنا؛ لعنت ملامت کرنا، باہر نکال دینا، لعن طعن کرنا، زمین کو پیروں سے کچلنا۔
(غیب ): غائب، نظروں سے دُور، چھپا ہوا، تصور اور حسیات سے دور، غیر مرئی، جھوٹی شکایتیں لگانا۔