اورنگزیب یوسفزئی اپریل 2014


سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر9


سورۃ قریش



قرآنِ عظیم کے مقدس متن کے اسلوبِ تحریر کو کلاسیکل ادب کا ایک شہ پارہ قرار دیتے ہوئے، جو کہ اب ایک تحقیق سے ثابت شدہ امر ہے اور صاحبِ کلام کی ذاتِ عالی کے شایانِ شان ہے ، قرآن کے موضوعاتی تراجم کے ایک سلسے کی اس عاجز نے ، روز مرہ زندگی میں درپیش نظریاتی مسائل کے حل کے واحد مقصد کے پیش نظر، ابتدا کی ہے۔ صرف موضوعات [themes] پر زور دینے کا سبب اس مہم کے حجم کو سکیڑ کر مختصر کر دینا، اور ایک کامل ترجمے کی خوفزدہ کر دینے والی طویل مہم سے گریز اختیار کرناہے، جس کیے لیے مطلوبہ قابلیت اور فراغت یہ عاجز اپنے تئیں میسر نہیں پاتا۔
پس تراجم کی یہ زیرِ نظر سیریز قرآنی عبارتوں میں قدم قدم پر موجود تشبیہات، استعارات، محاورات، ضرب الامثال اور مجازی معانی کو پیش نظر رکھتی ہے ۔ اور آپ دیکھیں کے کہ ہر قابلِ غور لفظ یا اصطلاح کو پہلے بریکٹ زدہ کر دیا گیا ہے اور پھر تحریر کے اواخر میں ان الفاظ و اصطلاحات کے معانی کی پوری وسعت تقریبا ایک درجن مستند ترین عربی لغات سے پیشِ خدمت کر دی گئی ہے ۔یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ تراجم میں ایک فیصد بھی ذاتی رائے یا عقیدہ یا نظریہ شامل نہیں ہے ۔ کام کا بنیادی معیار علم و عقل و شعور کو مقرر کیا گیا ہے تاکہ ہر قسم کی آلائشوں اور تعصبات سے پاک رہے ۔ اب تک چلے آ رہے لفظی تراجم کی مذمت اور ان کو کالعدم قرار دینے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ قرآن کی شکل کو یکسر بگاڑ دینے میں یہی لفظ بہ لفظ تراجم سب سے بڑا فتنہ ثابت ہو چکے ہیں۔
یہ عاجز خود بھی کوئی مسلک نہیں رکھتا اور نہ ہی مذہبی گروہ بندی پر یقین رکھتا ہے۔ اس عاجز کا تناظر صرف خالق اور اس کی مجموعی تخلیق ہے ، کائنات کے کاسمک مرحلے سے لے کر حیاتِ انسانی کے ترقی یافتہ ترین مرحلے تک ۔ اور تخلیقی کاروائیوں میں خالق کی کردار سازی کی ہدایات کا واحد ماخذ و منبع ، اس کی کتاب القرآن ۔ جس کی صحیح شکل کی پیروی انسان کو نسل در نسل اس کی متعین شدہ منزلِ مقصود کی جانب رواں دواں رکھتی ہے۔
تو آئیے متعلقہ تناظر کے اس بیان کے بعد موضوعِ زیرِ نظر پر کی گئی جدید ترین عقلی و علمی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں ۔
،۔،۔،۔،۔،۔،۔،

سورۃ قریش کے اس جدیدعقلی اور منطقی ترجمے کی بنیاد اس فلسفے پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کسی بھی قبیلے کا بالتخصیص ذکر اپنی کتابِ عظیم میں فرما کر اسے کیوں دیگر قبائل یا اقوام پر فضیلت بخشنے کا قصد کرے گی جب کہ اس کی تعلیمات کے مطابق ذات، قبیلے، نسل، زبان وغیرہ کی بناء پر کسی کو کسی پر کوئی استحقاق یا فضیلت نہیں ہے؟ دوسری جانب اسلامی تحریک کی جاری جدوجہد میں قبیلہ قریش کا ذکر کسی قدیم تاریخی نصیحت آموز واقعے سے متعلق یا منسلک بھی نہیں کہ اس کا ذکر سبق حاصل کرنے کے مقصد سے کیا جاتا، جیسے کہ قوم عاد و ثمود، یا قوم لوط یا فرعون وغیرہ کا۔ جبکہ اُس جاری جدوجہد سے متعلق تواریخ میں صرف قریش ہی کا نہیں دیگر کئی قبائل کا ذکر اور نمایاں کردار بھی موجود ہے ۔ تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں اسلامی تحریک سے متعلق اگر قریش کا واقعی ذکر کیا گیا ہے تو دیگر نمایاں قبائل کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ۔
آخر قریش ہی میں بنو ہاشم بھی شامل تھے جن کے سرداران کے خاندان میں رسالتمآب کے علاوہ بھی اسلام کے حامیان موجود تھے ۔ نیز حضرت عثمان[ر] جو اسلام کے اولین مجاہدین میں شامل تھے، قریش ہی کی بنو امیہ شاخ سے تعلق رکھتے تھے اور قرین عقل و قیاس ہے کہ دیگر بہت سےقریشی حضرات بھی اسلامی تحریک میں اولین دور ہی سے شامل ہوں گے ۔ فلہذا قبیلہِ قریش کی مجموعی نافرمانی کا ذکر،یا کعبے کی پیشوائیت اور اس کی بنا پر حاصل کردہ خوشحالی کی جانب باقاعدہ نام لے کر واضح اشارہ دینے ، اور اس ذریعے سے انہیں ایک نمایاں مقام عطا کرنےکا کوئی حتمی جواز سمجھ میں نہیں آتا ۔ کئی تراجم اسی سورۃ سے قریش کے تجارتی قافلوں کا ذکربھی اخذ کرتے ہیں، جبکہ یہاں ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا۔۔۔۔
یہ مانا کہ قبل از اسلام دور کےعرب کی سیادت قریش کے ہاتھ میں تھی۔ اور اسلامی تحریک کو اولین محاذ آرائی کا سامنا انہی کے ساتھ درپیش ہوا تھا ۔ لیکن یہ آیت ایک ایسے قبیلے کو نمایاں مقام کیوں دے گی جن کے ہاتھوں بعد ازاں صرف ۳۵ ہجری میں ہی اسلامی خلافت کی تباہی اور ملوکیت کے قیام کی بنیاد پڑی ۔اور حقیقی اسلامی فلاحی ریاست ایک استحصالی فرعونیت میں تبدیل ہو گئی۔ پس مقام غور و فکر ہے صاحبانِ دانش کے لیے ، اور اسی غور و فکر کے ضمن میں پیشِ خدمت ہے ایک ایسا ترجمہ جو خالصتا تحقیقی بنیادوں پر مستند ماخذات کے حوالے سے حیطہِ تحریر میں لایا گیا ہے ۔
سورۃ ۱۰۶ : قریش
لِإِيلَافِ قُرَ‌يْشٍ ﴿١﴾ إِيلَافِهِمْ رِ‌حْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ ﴿٢﴾ فَلْيَعْبُدُوا رَ‌بَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ ﴿٣﴾ الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ ﴿٤﴾
عمومی ترجمہ [۱]: ""قریش کے مانوس کرنے کے سبب، یعنی ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب، لوگوں کو چاہیئے کہ اس نعمت کے شکر میں اس گھر کے مالک کی عبادت کریں، جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف میں امن بخشا ۔"" [جالندھری]
عمومی ترجمہ [۲]: ""اس لیے کہ قریش کو میل دلایا، ان کے جاڑے اور گرمی دونوں کے کُوچ میں میل دلایا [رغبت دلائی]، تو انہیں چاہیئے کہ اس گھر کے رب کی بندگی کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا، اور انہیں ایک بڑے خوف سے امان بخشا""۔ [احمد رضا خان]
آپ اتفاق کریں گے کہ ان "شاہکار تراجم" کو پڑھکر، اور ان پر قلب وذہن کی تمام صلاحیتیں مرتکز کر کے بھی آیت مبارکہ کے مافی الضمیر کا کوئی ربط یا سر پیر سمجھ میں نہیں آتا ۔ فلہذا یہ عاجز پورے وثوق کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ درجِ بالا اور دیگر روایاتی تراجم عقل و فہم و دانش کی توہین کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اگر یہ تراجم قارئین میں سے کسی کے ذہن میں کوئی واضح صورتِ حال پیش کرتے ہوں ، اور بات کو کسی قدر سمجھانے میں کوئی مدد کرتے ہوں ، تو درخواست ہے کہ اس عاجز کو بھی اپنے شرحِ صدر میں حصہ دار بنائیں ۔ یہ عاجز شکر گذار ہوگا ۔
اور اب جدید تحقیقی بنیادوں پر کیا گیا ترجمہ :
۱۰۶/۱: لِإِيلَافِ قُرَ‌يْشٍ
تمام اطراف و جوانب سے اکٹھا کیے گئے باہم متحارب لوگوں [قُرَ‌يْشٍ] کی آپس میں انسیت ،تنظیم سازی اور اتحاد کی خاطر[لِإِيلَافِ]،
۱۰۶/۲: إِيلَافِهِمْ رِ‌حْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ
نیز انہیں سرد و گرم موسموں کی آمد و رفت کے دوران[رِ‌حْلَةَ] محبت، دوستی اور ہم آہنگی[إِيلَافِهِمْ] کے بندھنوں میں باندھے رکھنے کے لیے ،
۱۰۶/۳: فَلْيَعْبُدُوا رَ‌بَّ هَـٰذَا الْبَيْتِ
یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ تمہارے قائم کردہ اس نظریاتی ادارے یا مرکز کے مربی و مالک کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کریں۔
۱۰۶/۴: الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ ﴿٤﴾
اور ان پر واضح کر دیا جائے کہ یہ وہی ہستی ہے جو انہیں بھوک اور احتیاج میں سامانِ پرورش و نشوونما اور حالت خوف و اندیشے میں امن فراہم کرتی رہی ہے۔
بریکٹوں میں دیے گئے الفاظ کے مستند تراجم:
[قُرَ‌يْشٍ] : قرش: ادھر ادُھر سے اکٹھا کر کے ملانا؛ باہم لڑانا؛ کمانا، فوائد حاصل کرنا، اکسانا، مال و دولت والے، چھوٹی اور خوبصورت شارک مچھلی
[لِإِيلَافِ]: ایلاف: الف: واقف، مانوس ہونا، عادی ہونا، تربیت پا لینا، متحد ہونا، شریک ہونا، ملنا، اکٹھے ہونا، ہم آہنگ ہونا، ساتھ اور دوست بننا، محبت کرنا، پسند، منظور کرنا، اثر اندازہونا ، عہد و پیمان، تحفظ، سلامتی
[رِ‌حْلَةَ]: رحل: روانگی، روانہ ہونا، چلے جانا، دور ہٹ جانا، ہجرت کر جانا، منتقل ہوجانا، بھیج دینا، ادھر ادھر پھرتے رہنا، خانہ بدوشی کی زندگی گذارنا، اونٹ کو زین ڈالنا ۔ سفر۔ دورۃ ۔ ٹور۔ ٹرپ : رحلۃ الشتاء = موسمِ سرما کا گذرنا؛ رحلۃ الصیف = موسمِ گرما کا گذرنا؛ یہاں موسموں کے سفر، یعنی موسموں کے آنے جانے کا ذکر ہے۔وقت کے سفر کا ذکر ہے ۔ کسی تجارتی قافلے کے سفر کا نہیں۔
اور اب رواں ترجمہ:
تمام اطراف و جوانب سے اکٹھا کیے گئے باہم متحارب لوگوں کی آپس میں انسیت ،تنظیم سازی اور اتحاد کی خاطر، نیز انہیں سرد و گرم موسموں کی آمد و رفت کے دوران ، یعنی وقت کے گذران کے ساتھ ساتھ، محبت، دوستی اور ہم آہنگی کے بندھنوں میں باندھے رکھنے کے لیے ، یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ سب تمہارے قائم کردہ اس نظریاتی ادارے یا مرکز کے مربی و مالک کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کریں۔ ان پر واضح کر دیا جائے کہ یہ وہی ہستی ہے جو انہیں بھوک اور احتیاج میں سامانِ پرورش و نشوونما اور حالت خوف و اندیشے میں امن فراہم کرتی رہی ہے۔