Translation 18 – HAJJ
سلسلہ وار موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر81
The Islamic Ritual of Pilgrimage
in its Exclusive, Comprehensive and fully Expanded version.
اسلامی رسمِ پرستش" حج" کا اہم موضوع۔
اپنے ایک انفرادی، تفصیلی اور تمام تر وسعت کےحامل نئے ایڈیشن میں

تعارف
یہاں قارئین کی خصوصی توجہ کے لیے ابتدا ہی میں "حج" کے ضمن میں مستعمل چند ایک وہ خاص قرآنی الفاظ و اصطلاحات درج کر دی گئی ہیں جن کے روایتی تراجم میں دیے گئے غلط معانی عوام الناس میں گمراہی پھیلانے کا موجب ہیں,,,,, اور"حج" نامی اس زیارتی پرستش کے ڈھونگ کو دوام بخشتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس ڈھونگ کی وساطت سے حجاز و نجد کی عرب قوم عقائد کی ماری ہوئی مسلم قوم کی جیبوں سے ، اپنے گھروں میں بیٹھے، اپنی سال بھر کی روزی روٹی بافراط برآمد کروا لیتے ہیں۔ جبکہ ہر حج کے لیے جانے والامسلمان اس زیارت پر خرچ کیے ہوئے اپنے لاکھوں روپوں کے صرفے کے بدلے میں صرف پتھروں کی پوجا کرتا ، دربدر پھر کر دھکے کھاتا , ایک یا دو عدد معصوم جانوروں کا خون بہاتا اور اپنے ساتھ ایک زعم ِ باطل واپس لے آتا ہے کہ (شاید) پتھروں کے دور سے تعلق رکھنے والی چند رسومات پوری کرنے سے اس کے تمام گناہوں کا کفارہ ادا ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟ ۔اہلِ شعور سے سوال یہ ہے کہ ،،،،،،،،،کیا کسی مقام کی زیارت کر لینے سے آپ کے ارتکاب کردہ جرائم معاف ہو سکتے ہیں؟ یا،،،،،،کیا اللہ تعالیٰ ایک پتھر کے بنے ننگے اور خالی کیوبیکل میں رہائش پذیر ہو سکتا ہے؟ کیا وہ ہر جگہ موجود نہیں ہے؟ ہماری رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب نہیں ہے؟ تو اس کے ہاں حاضری دینے کے لیے ایک مخصوص مقام پر جانے کا کیا جواز ہے؟ ،،،،،،،،اور،،،،،،کیا جو مسلمان اتنی حیثیت ہی نہیں رکھتا کہ اس زیارت کے مصارف برداشت کر سکے، اور مسلمان کی قطعی اکثریت اس ہی کلاس سے متعلق ہے، تو وہ کس جواز سے مغفرت اور برکات کے اس موقعے سے محروم رکھا گیا ہے جو امراء کو میسر ہے؟ ،،،،،،،،،،،یقیناٗ ان سوالات کا تسلی بخش جواب کسی مذہبی پیشوا کے پاس نہیں ہے۔
یاد رہے کہ یہ تحریر حج کی رسم کے جواز و عدم جواز پر،،،، اور کعبہ کی تاریخی حیثیت کی تحقیق پر،،،، ایک مبسوط مقالہ نہیں ہے ۔ بلکہ صرف اُن قرآنی متون کو اُن کی حقیقی روشنی میں لانے کی کوشش ہے جن کی باطلانہ تشریح کا ارتکاب کر کے ، مذموم مقاصد کے تحت، اسلامی تاریخ کے ایک خاص اہم ابتدائی دور میں، ایک پتھر پرستی ،،،،،اور،،،،،، قربانی کے نام پر مخلوقِ خدا کا خون بہانےکی باطل رسوم کا اجراء کیا گیا ہے ۔ نام نہاد حج کے اس تمام عمل میں انسانی کردار کی تعمیر کے ضمن میں قطعاؑ کوئی راہنمائی یا پیش رفت نہیں پائی جاتی جبکہ یہی دینِ اسلام کی تعلیمات کا نقطہِ ماسکہ ہے۔ حج کی مروجہ رسم تو اس کے برعکس ایک نفسا نفسی، انتہائی خود غرضی اور بے حسی، وحشیانہ اور بالجبر سبقت لے جانے کا مقابلہ، طاقتور کا کمزور پر تشدد، امیر کا شاہانہ تزک و حشم اور غریب کی کسمپرسی اور بے شعور اندھی تقلید کا ایک بے مثال نظارہ ہے۔یقیناَ مثبت درجے کی استثنیات ہر جگہ اور ہر موقع پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
وہ چند خاص الفاظ و اصطلاحات جن کا بالائی سطور میں ذکر کیا گیا، یہ ہیں:-
حج، ، بیت، البیت، البیت الحرام ، مَقامِ ابراھیم، مصلّیٰ، قواعدمن البیت، کعبہ، المسجد الحرام ، قبلہ، صفا، مروۃ، شعائر اللہ، بکّہ، ۔
تمہید
قبل ازیں حج کے موضوع پر مبنی تمام مرکزی قرآنی آیات ،"صوم و حج" کے مشترکہ عنوان کے تحت، خالص علمی اور شعوری تراجم کے اس سلسلے کی قسط نمبر 8 میں، سورۃ البقرۃ کے حوالے سے، دقیق عملِ تحقیق سے گذرتے ہوئے ترجمہ کر دی گئی تھیں ۔ سورۃ البقرۃ میں ان دونوں موضوعات سے متعلق آیات کا باہم اختلاط اس اشتراک کی بڑی وجہ تھی۔ بعد ازاں تحقیق پسند دوستوں کی ایک جماعت نے چند دیگر آیات کی طرف توجہ مبذول کرائی جو حج (کعبہ) اور صیام ہی کے موضوع سے متعلق تھیں ۔ چنانچہ ایک اضافی (Supplement) ، بنام " قسط نمبر 16" کے ذریعے ان کی بھی تشریح کر دی گئی تھی۔
فی الوقت، از سرِ نو ، لاہور سے دوستوں نے حج ہی کے ضمن میں کچھ مزیدآیات کے حوالے ارسال کیے ہیں جن میں کچھ ایسے الفاظ و اصطلاحات مذکور ہیں جن کا حج کے مرکز کے ساتھ ایک تعلق بنتا ہے، اور جن کے حقیقی معانی سیاق و سباق کے مطابق تحقیق کے توسط سے مطلوب ہیں ۔ ان دوستوں کا موقف یہ ہے کہ جب تک ان مخصوص اصطلاحات کے معانی بھی عملِِ تحقیق کی رُو سے واضح نہیں ہو جاتے، حج کے مروجہ فریضے، جو پتھروں کی پوجا اور معصوم جانوروں کو ذبح کرنےپر مبنی ہے، کے بطلان سے متعلق حتمی فیصلہ کرنا مشکل ہے ۔ یہ اس لیے کہ ان اصطلاحات کے روایتی معانی ایک خاص ، پتھروں سے تعمیر شدہ ،مربع شکل کی عمارت یا مقام ہی کی جانب بار بار اشارہ کر رہے ہیں اور اس مقام کا تقدس متعدد بار زیرِ تذکرہ لا کر ایک مقامِ حج، یعنی ایک مذہبی زیارت گاہ ہی کی حیثیت کو نمایاں کیا جا رہا ہے ۔
لہذا یہ تمام آیات ذیل میں درج کی جا رہی ہیں اور ان کا قرآن کے بلند اسلوبِ بیان کے مطابق خالص علمی و ادبی معیار سے مزین ترجمےکی کوشش کی گئی ہے، جو سیاق و سباق اور تصریف الآیات کےاصولوں سے مکمل مطابقت کا حامل ہوگا۔ نیز دس عدد معروف و مسلمہ عربی لغات کی تحقیق سےلیے گئے معانی سے سند یافتہ ہوگا۔ امید کی جاتی ہے کہ احباب کے لیے شرحِ صدر کا موجب ثابت ہوگا ۔
کیونکہ اس مضمون کا تعلق ہمارے ما قبل تشریح کردہ حج کے تصور پر کیے گئے کام سے جڑا ہوا ہے اس لیے سابقہ تراجم کی فہرست سے حج کے موضوع پر مبنی مواد کو جہاں تک ممکن ہو سکا علیحدہ کر کے، جو قبل ازیں صوم کے مضمون کیساتھ شریک تھا، اسی تحریر میں شامل کر دیا گیا ہے( یہ اب اسی تحریر کے اواخر میں مندرج ہے) تاکہ یہی تحریر ، جو خالص علمی اور شعوری تراجم کے سلسلے کی قسط نمبر 18 کے نام سے موسوم ہے، اب انفرادی طور پر حج سے متعلقہ تراجم پر ایک مبسوط اور مکمل تحریر کی شکل اختیار کر جائے اور ساتھیوں اور اساتذہ کی جانچ پڑتال کے لیے پیش کر دی جائے ۔
اس سلسلے میں اتمامِ حجت کی خاطر اس ابتدائیے میں ہی عرض گذار ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی بھی مقام یا عمارت یا دن یا مہینہ یا فرد و بشرکو مقدس و متبرک قرار دینا ، یا ایسا سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا قرار دیا ہے، اس ہی کے عطا کردہ نظریہ حیات کے اصل الاصول کے خلاف ہے ۔ کیونکہ ایسی کسی بھی قرار داد سے،،،،،،، وہ مقام، وہ دن یا مہینہ ،یا وہ فرد و بشر، ،،،،،،،انجامِ کار،،،، پوجا اورسجود و برکات کا مرکز بن کر ،شرک پھیلانے کا باعث ہو جاتا ہے، جیسا کہ ہم موجودہ مفروضہ خانہ کعبہ کے ساتھ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ صدقِ بسیط تو بس یہی ہے کہ مقدس و متبرک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ِعالی ہے کیونکہ خالق و ہادی ہونے کی جہت سے وہی تمام انسانیت کا "قبلہ" و "کعبہ" ہے،،،،،، ، اور بعد ازاں اس درجے کا حامل صرف اس کا عطا کردہ حکمت و دانش سے معمورکلام، قرآنِ عالی شان ہے جو منبع و مرجعِ احکاماتِ الٰہیہ ہے(المسجد الحرام)۔اس کے علاوہ بھی اگر کوئی مقام ، یا چیز، مقدس و متبرک ہو سکتی ہے تو وہ مرکزِ ہدایتِ الٰہی (البیت، یا بیت اللہ ، یا البیت الحرام ،یا البیت المقدس) یا مرکزِ حکومتِ الٰہیہ (المسجد الحرام)کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتی، جہاں اور جس علاقہ میں بھی یہ واقعی قائم ہو گیا ہو،،،،،، کیونکہ،،،،، ایسا کوئی بھی مرکز ذاتِ باری تعالیٰ ہی کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے لیے، ساری دنیا کے وسیع رقبےاور تمام انسانیت کے عظیم پھیلاؤ کےتناظر میں، کوئی بھی واحد مخصوص مقام ما قبل سے متعین یا مقرر شدہ نہیں ہو سکتا ۔ با کردار انسانوں کی ایک جماعت، انسانوں کے مختلف قوموں پر تقسیم شدہ کسی بھی معاشرے میں قبولیت حاصل کرتے ہوئے، ایسا ایک مرکز، یا کئی مراکز، خلوصِ نیت اور عزمِ صمیم سے کام لیتے ہوئے، کہیں بھی قائم کر سکتی ہے۔
اس ضمن میں تفہیم کی آسانی کے لیے سب سے بہتر باور کرتا ہوں کہ اولا" تمام قرآنی اصطلاحات ،جو ہمارے دوستوں کے ذہنوں میں انتشار و خلفشار کا باعث بن رہی ہیں ، جن میں سے کچھ تحریر کی ابتدا میں بھی درج کی گئی ہیں، انہیں ان آیات میں سے چن کر یہاں درج کیا جائے ،اور آیات کے علمی و ادبی تراجم سے قبل ،ان اصطلاحات کو مستند لغات کی مدد سے متشرح کر دیا جائے ۔ ثانیا"، جب اس طریقِ کار کے استعمال سےان اصطلاحات کے حقیقی معانی و مفہوماذہان میں اچھی طرح بیٹھ چکے ہوں گے، تو متعلقہ آیات کے بعد ازاں آنیوالے تراجم بآسانی تفہیم کی منازل طے کرتے چلےجائیں ۔
تو آئیے اللہ تعالیٰ کے پاک نام سے ابتدا کرتے ہیں۔
متنازعہ الفاظ و اصطلاحات اور ان کا مستند ترجمہ و تشریح:
(الحج) : حج: حجت تمام کرنا؛ دلائل کے ساتھ جھگڑنا، کسی مقدمے کی پیروی کرنا، شہادت، گواہی ثبوت پیش کرنا، الزام لگانا، کسی کام کا قصد کرنا، عزت و احترام دینا، (مذہبیت کے اثرات کے تحت معانی :کسی قابل احترام چیز، جگہ یا شخصیت کی طرف جانا)۔ الحج : اللہ کے عطا کردہ نظریے کے بارے میں اپنی حجت یعنی دلیل و برہان مکمل کرنا۔ دین اللہ پر یقین لانے کے لیے تحقیق، دلائل و حجت ، اتمامِ حجت۔ حج کے اصل معانی پر مکمل شرحِ صدر کے لیے ملاحظہ فرمائیں یہ آیاتِ مبارکہ: 2/139، 3/61، 3/65، 3/66 جہاں یہ لفظ فعل کے صیغے میں استعمال کیا گیا ہے۔کسی شک کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔
(الْبَيْتَ) : یہ "باتَ"( baata )سے مشتق ہے جس کا بنیادی معنی ہے رات گزارنا، اور کسی چیز کے بارے میں اور اس کے آخری نتیجے کے بارے میں سوچ و فکر کرنا؛ نیز ذہن میں کچھ سوچ و فکر رکھنا اور اسے چھپا لینا ۔(دیکھیے "بیوت النبی" کے تحقیقی معانی – سورۃ احزاب:53، تراجم کی قسط نمبر1)۔ اس کے دیگر معانی میں شب خون مارنا بھی آتا ہے ۔"بیت" اور "البیت" کے معانی میں خاص سوچ و فکر و پلاننگ، سوچ و فکر کا مرکز، خاص نظریاتی مرکز، قرآن کے تناظر میں الہامی فکری مرکز یا ادارہ ؛ رات گزارنے کی مخصوص جگہ یعنی گھر ، ایک قبر، ایک خاص گھرانا، اشرافیہ، نیز مذہبی اثرات کے نتیجے میں یہ حضرت نوح کی کشتی کو، مساجد یا پرستش گاہوں کو، کعبہ یا یروشلم کو بھی کہا جاتا ہے۔
by/in/at night (excluding sleep), entered upon or passed the night
tent, house, home; Thinking about something and its end result
Concealed or conceived something in the mind
A structure of clay or any structure signifying a habitation, an abode or dwelling.
Buildings, uninhabited houses, shops, ruins, bazaars, places where the entering is allowed by the owners. Ark of Noah, Mosques, places of worship, Kaabeh or Jerusalem
A grave, Household or family, Nobility, Sudden attack in the night or a surprise attack in the night, Remaining through the night (e.g. bread or water that stays out and becomes stale)
(مَّقَامِ إِبْرَ‌اهِيمَ) : یہ "مفروضہ کعبہ" کے احاطےمیں ایک مخصوص جگہ کا نام رکھ دیا گیا ہے جہاں موجود ایک پیر کے نشان کو حضرت ابراہیم کے پیر کا پرنٹ کہا جاتا ہے ۔ اب اسے جہالت کی انتہا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس امر کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی گئی کہ "مقام" کا لفظ اپنے پہلے میم پر زبر کے ساتھ لکھا گیا ہے، پیش کے ساتھ نہیں ۔ اور یہ ثابت ہے کہ زبر کے ساتھ مقام کا معانی ،،،،کوئی جگہ نہیں،،،،،، بلکہ،،،،،، درجہ، مرتبہ، منصب ہے۔ کیا ایک پیر کا نشان حضرت ابراہیم کا منصب یا مرتبہ قرار دیا جا سکتا ہے، یا پھر یہ توہینِ رسالت کا ارتکاب ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن تو یہاں حضرت ابراہیم کو عطا کردہ بلند منصب، یعنی "انسانیت کا امام"، کی جانب اشارہ کر رہا ہے، اور ہمارے روایتی تراجم میں ،عوام الناس کی ایک قطعی اکثریت کو دھوکا دے کر، ایک "خاص جگہ" کو متبرک و مقدس قرار دیا جا رہا ہے تاکہ اللہ کو چھوڑ کر اس جگہ کی پرستش کی جائے۔
(مُصَلًّى) : صلوٰۃ کا معنی کیونکہ اتباع و پیرویِ قوانینِ الٰہی ہے اس لیے ہر وہ ماخذ و منبع جہاں سے اتباعِ نظام الٰہی کے سوتے پھوٹتے ہوں، مصلیٰ بھی کہلاتی ہے ۔
(بَيْتِيَ ) : اوپر کی سطور میں "بیت" کے معانی کی تشریح کی جا چکی ہے۔
(هَـٰذَا بَلَدًا) : یہ خطہِ زمین ۔ حضرت ابراہیم کی دعا کا حصہ ہے اور اشارہ اُس سرزمین کی جانب ہے جہاں حضرت کا وطن تھا اور جہاں آپ نے پہلا مرکزِ ہدایت قائم فرمایا تھا ۔ یہاں سے مکہ کا شہر مراد لینا نہایت دور از کار استنباط ہوگا اور ارادتاّ ایک مفروضے کو تقویت بخشنے کی نیت رکھتا ہوگا۔
(الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ) : اُ سی مرکزِ فکر وہدایت کے "قواعد و ضوابط " (Rules and Regulations)جس کا ذکر پہلے فرمایا گیا۔ یہاں قواعد سے مراد دیواریں اور ان کی تعمیر لینا پھرایک مفروضے کے تانے بانے بُننے کے مترادف اورایک سازشانہ ذہن کی کارفرمائی ہوگا۔
(وَأَرِ‌نَا مَنَاسِكَنَا) : مناسک کو حج کی رسومات اور ان کا ادا کرنا باور کرایا جاتا ہے، جو پھر حج کے اُسی مفروضے کو تقویت بخشنے کا مقصد رکھتا ہے ۔ دیکھیے مستند معانی ،،،،"منسک"؛ "نسک" : اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل، اللہ سے وابستگی کی زندگی گزارنا، پرہیزگار یعنی باکردار ہونا۔ purify/wash oneself, to lead a devout life, be pious۔: وَأَرِ‌نَا مَنَاسِكَنَا "اور ہمیں ہماری ذات کی پاکیزگی/ہماری کردار سازی کی جانب راہنمائی عطا فرما دے"۔
(قِبْلَةً تَرْ‌ضَاهَا ) : وہ مقصدِ پیشِ نظر جسکا حصول تجھے مطمئن کر دے: قِبْلَةً : مقصدِ پیشِ نظر، نصب العین۔
(الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ): یہ ایک ذو معانی اصطلاح ہے جو مختلف مقامات پر مختلف معانی رکھتی ہے۔ اسے حج ہی کے مفروضے کے تحت موجودہ خانہ کعبہ کہا اور سمجھا جاتا ہے، لیکن قرآن میں بہت سے مقامات پر اس معانی کا اطلاق ناممکن ثابت ہوتا ہے۔ لہذا ایک درست اور سیاق و سباق کے عین مطابق ترجمے کے لیے اس کے تمام لغوی و استعاراتی معانی کو زیرِ تحقیق لانا ایک لازمی امر ہے۔ غور فرمائیے ۔
[الْمَسْجِدِ] : س ج د: برتری، اتھارٹی تسلیم کر لینا؛ جھک جانا، خود کو حقیر کرنا؛ تعظیم دینا، اطاعت کرنا، انکساری/عاجزی کرنا، سلوٹ کرنا؛ احکامات کے سامنے جھک جانا؛ [مفرداتِ راغب: اصل معنی فروتنی اور عاجزی ہیں] ؛ تابع ہونا، فرماں برداری، اطاعت میں مکمل عاجزی و خود سپردگی۔ To bow down, prostration, he was or became lowly, humble or submissive, paid respect, salute, honor or magnify, bend or incline, submit to one’s will.
مسجد: مساجد: س ج د سے اسمِ ظرف اور اسمِ مفعول : ہر وہ جگہ جہاں جھکنے، تابع ہونے، برتری یا اتھارٹی تسلیم کرنے، تعظیم دینے، اطاعت کرنے کا عمل بجا لایا جاتا ہے ۔ یا ہر وہ منبع و ماخذ یا وہ احکامات جن کی برتری تسلیم کی جائے، جن کے سامنے جھکا جائے، جن کی تعظیم دی جائے، جن کے تابع ہوا جائے اور جن کی فرماں برداری کی جائے۔
المسجد اور المساجد(معرفہ)،،،،: وہ خاص مرجعِ تعظیم و اتباع و فرماں برداری جہاں اللہ تعالیٰ کی حکومت یا مرکزِ ہدایت قائم ہو ۔ اس ضمن میں قرآن بھی استعارتاؑ المسجد کے معنی میں آ جاتا ہے کیونکہ وہ ہی سب سے بڑا مرکز و منبع و مرجعِ اتھارٹی و اطاعت ہے۔ نیز احکامات الٰہی بھی "المسجد" کی اسی تعریف میں آتے ہیں۔قرآن بھی انہی واجب التعمیل احکامات پر مشتمل ہے۔
[ الْحَرَ‌امِ ]: [یہ لفظ متضاد معانی پر محیط ہے یعنی حرام اور ممنوع اور پابندیوں کا حامل بھی اور محترم یا قابلِ احترام اورواجب الاطاعت ِو تقلیدبھی ۔ استعمال سیاق و سباق کے مطابق ہوگا۔]ممنوعہ، جرم، غیر قانونی، ناقابلِ خلاف ورزی، ، لعنتی، انکار کرنا، پابندیوں والا ؛ محترم، مقدس ،حرمت والا۔
اسی کے مطابق المسجد الحرام کے ایک اور معانی وہ شرائط واحکامات بھی ہوں گے جن کی تعمیل یا پابندی کسی معاہدے کے تحت لازمی ہوگی، کیونکہ یہی اصطلاح قرآن میں سیاق و سباق کے مطابق ان معانی میں بھی لائی گئی ہے۔
[الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ] : ق ص و : دور دراز، فاصلے پر، دور چلے جانا، انتہا۔ اقصیٰ : زیادہ دور، زیادہ فاصلے پر؛ وہ مرکزِ اطاعتِ الٰہی جو دُور کے فاصلے پر قائم ہے۔
(الصَّفَا وَالْمَرْ‌وَةَ) : الصفا: ص ف و : کسی بھی ملاوٹ سے پاک، ہوا یا ماحول کا بادلوں سے صاف ہونا اور محبت، زندگی، شعور اور دل کا پاک ہونا، کسی بھی چیز کا صاف شفاف، خالص، بہترین، پسندیدہ جزء، صاف، واضح، سچا، مخلص؛ شناخت کرنا، خاص طور پر چننا، ترجیح دینا، زندگی کا سکون، آرام؛ اجر کے طور پر حاصل شدہ خلوص اور پاکیزگی ۔
free from admixture, became cloudless (said of air/atmosphere, but also said of love/life/mind/heart), clear/pure/best/choice/favoured part/potion, clear/clarify, true/sincere, distinguish particularly/specially, select/elect/prefer, serenity of life, comfort, reciprocal sincerity/purity.
المروۃ: مروہ : اس کے مادے کا تعین حتمی نہیں ۔ پھر بھی قیاس یہی ہے کہ یہ "م ر ء" یا "م ری" یا "روء" "روی" میں سے کوئی ہو سکتاہے۔اس کے معانی میں مروّت ، مہربانی اور خو شگواری کا پہلو نمایاں ہو گا۔ دیگر ممکنہ مادہ م۔ ر۔ و ہو سکتا ہے جس سے "المرو" کا معنی ایک خوشبو دار پودا، چقماق پتھر، سخت، بنجر زمین اور ایسا پتھر جس پر جانور ذبح کیا جائے وغیرہ لیا جاتا ہے۔ بہرحال صفاء و مروہ جن دو پتھروں کو کہا جاتا ہے ان کا اپنے نہایت حقیر حجم کے ساتھ پہاڑ یا پہاڑی کہلانا ،،،،، اور پہاڑ کا اللہ کے شعائر میں سے ہونا عقل و شعور کی رُو سے خارج از امکان ہے۔

(شَعَائِرِ‌ اللَّـهِ) : شعائر کسی کے عمومی متعین رویےکو کہتے ہیں جس سے کسی کو پہچانا جائے؛ characteristic practices” " ... یعنی شعائر کسی کے رجحانات اور نظریات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسی مادہ سے شعر اور شاعر، شعور ، مشعر وغیرہ مشتق ہیں ۔اسی کے مطابق یہاں معنی ہوگا اللہ تعالیٰ کا طریقِ کار، اس کی صفاتِ عالیہ یا خصوصیات۔
(حَجَّ الْبَيْتَ) : اللہ کے مرکزِ فکر و ہدایت کا قصد کرنا ، کسی بھی مرکزِ فکر و ہدایت کا، تاکہ وہاں دلیل و حجت کے بعد اطاعت کے مرحلے تک پہنچا جائے۔
(أَوِ اعْتَمَرَ) : اعتمر؛ عمرہ، ع م ر: رہائش اختیار کرنا، زندگی گذارنا، لوٹ آنا، آباد کرنا، خدمت کرکے نام بلند کرنا، توجہ دینا، عزت دینا، محبت اور شفقت دینا ، زندہ رہنا، عمر، لمبی زندگی وغیرہ۔ (مذہبی معانی: چھوٹا حج، حج جس میں بہت کم رسومات ادا کرنی ہوں، کسی مقدس زیارت پر جانا وغیرہ) ۔۔۔۔to inhabit, dwell, mend,، repair/revive, tend, build, promote, cultivate, make habitable, to make better, to develop, populate, to serve/uphold/observe/regard, to visit, to colonize, aimed at it, frequently visit, a visit in which is the cultivation of love/affection, repairing to an inhabited place.
perform a sacred visitation, minor pilgrimmage, pilgrimmage with fewer rites.
to remain alive (save life), to live, life, age, long-life, old-age.
(طواف) : طوف؛ طائف؛ ارد گرد گھومنا، چوکیداری کرنا، گشت لگانا، پہرے داری کرنا، خدمت گزاری کرنا، کوتوال، جماعت، گروہ، طوفان، پانی کا ریلہ، وغیرہact of going/walking, going/walking around or otherwise, to go or wander about, circuited/compassed, journeyed, came to him, come upon, visitation, visit, approach, drew near, to go round or round about often, encompass,
"the men/people/locusts filled the land like the TWF/flood/deluge", overpowering/overwhelming rain/water that covers,
a servant that serves one with gentleness and carefulness,
a detached/distinct part/portion, a piece or bit, a party/division/sect,
a sort of raisins of which the bunches are composed of closely-compacted berries, a garment in which one goes round or circuits, a place of going round or round about.
(مِلَّةَ إِبْرَ‌اهِيمَ ): حضرت ابراھیم کا طریقہ، راستہ، نظریہ، سیرت و کردار، طور طریقہ۔
(بِبَكَّةَ): بکۃ؛ مقابلہ کرنے، کچل دینے، تباہ کر دینے، برتری حاصل کرنے اور مزاحمت کرنے کی قوت ؛ ازدھام اور بھیڑ ہونا، وغیرہ - pounding or crushing: (on) the neck) (daqqul-&unuqa), distinguishing/ranking above others (farraqah) (kharaqahu), jostling, pressing or crowding(crowds:zahm), any crowding (or crowds), competition. (izdihaam) heaping/piling together/amassing (taraakib), super-imposition of things on top of other things (taraakim), a man/male having or the trying to have sex with a female, denial or rejection a thing or person's dignity, to humiliate, cancellation/dissolution/breaking, being in need or being stout, muscular or rough from activity, name of a place.
(الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ): ایک خاص محترم نظریاتی ادارہ/فکری مرکز؛ الہامی فکر و ہدایت کا قابلِ احترام مرکز،،،،کہیں بھی قائم کیا گیا ہو – مقام اہم نہیں۔
[الھدیُ ]: عمومی: وہ قربانی جو جانور کی صورت میں حرم میں کی جاتی ہے۔ قرآن کی اس آیت: حتٰی یبلغ الھدیُ محلہ: میں الھدی کو مخفف اور مشدد دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اس کا واحد ھدیۃ اور ھدِیۃ ہے ۔ کہا جاتا ہے: ما احسن ھدیتہ: اس کی سیرت کس قدر اچھی ہے۔ مزید معانی : تحفہ ، نذرانہ، عطیہ، اسیر، قیدی، صاحبِ عزت، سیرت، طریقہ، بھیجنا، anything venerable or precious۔
(مثابۃ): ث و ب : واپسی لوٹنا، بحال کرنا/برآمد کر لینا، پچھتانا، جمع کرنا، طلب کرنا، بہنا، وافر ہو جانا، جو ڈھانک لے، تحفظ دے۔ مثابۃ: واپس آنے کی جگہ، لوگوں کی جمع ہونے کی جگہ جو منتشر ہو گئے ھے؛ مسکن، گھر، کپڑے، اخلاقی اصول، رویہ، دل، پیروکار،خالص دل رکھنے والا، اچھا کردار۔
= Tha-Waw-Ba = to return, turn back to, to restore/recover, to repent, to collect/gather.
to call/summon (repeatedly), rise (dust), to flow, become abundant.
something returned (recompence, reward, compensation), to repay.
a thing which veils/covers/protects, a distinct body or company of people.
mathabatan - place of return, place to which a visit entitles one to thawab/reward, assembly/congregation for people who were dispersed/separated previously, place of alighting, abode, house, tent.
raiments, garments, morals, behaviour, heart, dependents, followers, robes, clothes, pure/good hearted, of good character.
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس نکتے تک شرحِ صدر ہو جانے کے بعد اب رفقاء کی جانب سے دیے گئے آیات کے حوالہ جات کا ترجمہ پیش کر دیا جاتا ہے۔ قرآن عربی زبان کا ایک ادبی شہ پارہ ہےاپنے اسلوبِ عالی کی جہت سے استعارات، ضرب الامثال، تشبیہات، محاورات سے مزین تحریر ہے۔اس اردو ترجمے میں کوشش کی گئی ہے کہ قرآن کے اسی اسلوب عالی کی بقدر توفیق پیروی کی جا سکے۔ لفظی معانی لینے کے رائج الوقت غیر علمی اور غیر مستند رحجان کی نفی کی گئی ہے ۔
آیاتِ مبارکہ: 2/125-128: البقرۃ
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَ‌اهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَ‌اهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَ‌ا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّ‌كَّعِ السُّجُودِ ﴿١٢٥﴾ وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ رَ‌بِّ اجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْ‌زُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَ‌اتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ‌ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّ‌هُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ‌ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ‌ ﴿١٢٦﴾وَإِذْ يَرْ‌فَعُ إِبْرَ‌اهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَ‌بَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿١٢٧﴾ رَ‌بَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِ‌نَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّ‌حِيمُ ﴿١٢٨﴾
(نوٹ فرمائیے کہ سیاق و سباق (2/122) کے مطابق یہاں مخاطب قومِ بنی اسرائیل ہے جس سے یہ ثابت ہے کہ یہ ان ہی کے قدیمی علاقے کے کسی مرکز کا ذکر ہے جو حضرت ابراہیم نے وہاں قائم کیا تھا ۔لہذا شہر مکہ کے موجودہ نام نہاد کعبے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔)
"اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے اپنے اس قائم شدہ مرکزِ فکر و ہدایت (الْبَيْتَ) کو عامۃ الناس کی ہدایت و منفعت کے لیے بار بار رجوع کرنے کا مقام(مَثَابَةً) اور جائے امن بنا دیا تھا، اور یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ابراھیم کے مقام و منصب کی پیروی (مُصَلًّى)کو اپنے مقصود کی حیثیت سے مضبوطی سے پکڑ لیں۔ نیز ہم نے ابراھیم و اسماعیل سے یہ وعدہ بھی لے لیا تھا کہ وہ میرے اس مرکزِ فکر کو اس کی نگہبانی کرنے والوں(لِلطَّائِفِينَ )، یہاں بیٹھ کر اس کا نظم و ضبط قائم رکھنے والوں(الْعَاكِفِينَ) ، اس کے اصولوں کے سامنے جھک جانے (الرُّ‌كَّعِ)اور مکمل اطاعت و فرماں برداری (السُّجُود)کے لیے مختص کر کے غیر الٰہی نظریات و عناصر سے پاک(طَهِّرَ‌ا) رکھیں گے﴿١٢٥﴾۔ اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ابراھیم نے عرض کی کہ اے رب اس خطہِ زمین کو امن کا گہوارہ بنا دے اور اس کے اہالیان کو خوشگوار نتائج (الثَّمَرَ‌اتِ )سے بہرہ ور فرما دے، خصوصاٗ ان میں سے ان لوگوں کو جو اللہ پر اور آخرت کے آنیوالے مرحلہِ زندگی کے نظریے پر یقین رکھنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ درخواست قبول فرمائی تھی اورفرمایا تھا کہ ان میں سے جس نے بھی اس نظریے سے انکار کی روش اپنائی تو ان کو تو میں صرف قلیل پیمانے پر نوازوں گا اور بعد ازاں ایسے لوگوں کو آگ کے عذاب کی جانب دھکیل دوں گا، جو کہ ایک نہایت برا انجام ہے﴿١٢٦﴾۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ جب ابراھیم اور اسماعیل اس الہامی مرکزِ فکر و ہدایت کے اصول و قواعد (الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ) ترتیب دے کر انہیں نمایاں مقام (يَرْ‌فَعُ )دے رہے تھے تو ان کی زبانوں پر یہ دعا جاری تھی کہ اے ہمارے رب ہماری یہ کاوشیں قبول فرما۔ بیشک تو سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے﴿١٢٧﴾۔اے ہمارے رب ہمیں اپنے قوانین کے آگے جھکنے والا بنا اور ہماری نسل میں سے بھی اپنے آگے جھکنے والی قوم پیدا کر دے ۔ نیز ہمیں ہماری ذات کی پاکیزگی /کردار سازی( مَنَاسِكَنَا)کے اصول بتا دے اور ہماری جانب خصوصی توجہ فرما۔ بیشک تو توجہ فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے﴿١٢٨﴾۔"
آیاتِ مبارکہ: 2/144-150: البقرۃ
قَدْ نَرَ‌ىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْ‌ضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ‌ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَ‌هُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ ﴿١٤٤﴾ وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٤٥﴾
"ہم نے دیکھ لیا ہے کہ تیری توجہ (وَجْهِكَ )کا رخ علم و آگہی کے لیے کائنات کی وسعتوں کی جانب (فِي السَّمَاءِ)مرتکزہے۔اس لیےہم تجھے ضرور اُس گوہرِ مقصود (قِبْلَةً)کی جانب راہنمائی عطا کرینگے جو تیری تلاش و جستجو کو مطمئن کر دے گا(تَرْ‌ضَاهَا) ۔ پس اس کے لیےضروری ہے کہ تُو اب اپنا تمام تر ارتکاز اللہ تعالیٰ کے واجب التعمیل احکامات(الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ )کی جانب موڑ لے۔ اور تم سب جہاں بھی موجود ہو اپنی توجہات کو اسی جانب موڑ لو ۔ نیز وہ دیگر لوگ بھی جنہیں اللہ کے احکامات (الْكِتَابَ) دیے گئے ہیں وہ سب یہ جانتے ہیں کہ وہ ان کے رب کی جانب سے نازل کردہ سچائی ہے اور یہ بھی کہ جس روش پر وہ چل رہے ہیں، اللہ اس سے لا علم نہیں ہے﴿١٤٤﴾۔ لیکن ان اہلِ کتاب کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ اگرچہ تُو ان کے سامنے ہر واضح نشانی یا دلیل پیش کرے تو بھی وہ تیرے نصب العین کا اتباع نہ کریں گے ، کیونکہ تُو اُن کے نصب العین کی متابعت نہیں کرتا۔ خود ان کے اپنے درمیان بھی نصب العین یا مقصدِ حیات کے بارے میں باہم اختلافات موجود ہیں، اور ایسا ہوا کہ تُو حقیقی علم کے حصول کے بعد بھی ان کے باطل خیالات کا لحاظ رکھنے لگ جائے، تو اس صورت میں تُو بھی حق کو جھٹلانے والوں میں شامل ہو سکتا ہے﴿١٤٥﴾۔
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِ‌فُونَهُ كَمَا يَعْرِ‌فُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِ‌يقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ﴿١٤٦﴾ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِ‌ينَ ﴿١٤٧﴾ وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَ‌اتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّـهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿١٤٨﴾ وَمِنْ حَيْثُ خَرَ‌جْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ‌ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ﴿١٤٩﴾ وَمِنْ حَيْثُ خَرَ‌جْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ‌ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَ‌هُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ﴿١٥٠﴾

حقیقتاہم نے جن لوگوں کو الہامی صحیفہ عطا فرمایا ہے وہ اسے اتنی ہی اچھی طرح جانتے ہیں جتنے مکمل طریق پر وہ اپنی آل اولاد کو جانتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا ایک گروہ علم رکھتے ہوئے بھی صدقِ بسیط کو جان بوجھ کر پوشیدہ رکھتا ہے﴿١٤٦﴾۔دراصل سچائ صرف تیرے رب کی جانب سے آتی ہے، پس اس کے معاملے میں تم لوگ کبھی شک و شبہ نہ کرنا﴿١٤٧﴾۔ ہر ایک کی توجہات کا رخ موڑنے والا وہی ہے، یعنی یہ اسی کی ہدایت سے ہوتاہے ۔ پس اس مقصد کے لیے خیر کے کاموں میں سبقت حاصل کرو۔ اس طریقے سے تم جہاں بھی ہوگے اللہ تعالیٰ تم سب کی کاوشوں کا پورا پورا ساتھ دے گا۔ کیونکہ درحقیقت یہ اللہ ہی ہے جس نے ہر کام کا اور اس کے نتائج کا پیمانہ، قانون، طریقہ کار مقرر و متعین کر دیا ہے﴿١٤٨﴾۔ سو تم جس بھی حالت میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پیش قدمی کرو، اپنا ارتکاز اللہ کے واجب التعمیل احکامات (الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ )پر رکھو، کیونکہ یہی تمہارے رب کی جانب سے آئی ہوئی سچائی ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے غافل نہیں ہوتا کہ تمہاری روش کس کے تابع چل رہی ہے﴿١٤٩﴾۔ اور تم جس بھی کام کے لیے پیش قدمی کرو، اللہ کے واجب التعمیل احکامات (الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ)کی جانب توجہ قائم رکھو، اور تم جس بھی پوزیشن میں ہو اپنی توجہ ادھر سے مت موڑو، تاکہ تمہارا کردار تمام انسانوں کے لیے دلیل و حجت بن جائے، سوائے انکے جو اُن میں سے ظالم ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں سے خائف مت ہونا۔ خوف صرف میرے احکامات کی خلاف ورزی سے ہو۔ یاد رہے کہ یہ روش اختیار کرنی اس لیے ضروری ہے تاکہ میں تم پر اپنی عنایات تمام کر دوں اور تم ہدایت یافتہ باکردار انسان بن جاؤ﴿١٥٠﴾۔ "
2/158: البقرۃ
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْ‌وَةَ مِن شَعَائِرِ‌ اللَّـهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ‌ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرً‌ا فَإِنَّ اللَّـهَ شَاكِرٌ‌ عَلِيمٌ ﴿١٥٨﴾
"بیشک اپنی ذات میں خالص اور پاک ہونا(الصَّفَا) اور مہربانی و مروت(الْمَرْ‌وَةَ) اللہ تعالیٰ کی صفات و خصوصیات میں سے ہیں۔ اس لیے جو بھی اللہ کے مرکزِ فکر و ہدایت میں حجت کا قصد کرے (حَجَّ الْبَيْتَ) یا اس کے تحت زندگی گذارنے کا بندوبست (اعْتَمَرَ)کر لے تو اس کے لیے کوئی مشکل نہیں رہتی کہ ان دونوں صفات کو اختیار کر کے ان کی نگہداشت و نگہبانی کرے، کیونکہ جس نے بھی کسی عملِ خیر میں حصہ ڈالا(تَطَوَّعَ خَيْرً‌ا) تو وہ جان لے کہ اللہ اس کا علم بھی رکھتا ہے اور ایسی کوششوں کا ثمر بھی عطا کرتا(شَاكِرٌ‌) ہے۔"
2/217: البقرۃ
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ‌ ۖ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَكُفْرٌ‌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ وَإِخْرَ‌اجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ‌ عِندَ اللَّـهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ‌ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُ‌دُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَن يَرْ‌تَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ‌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ‌ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢١٧﴾
"یہ لوگ تم سے معاہدوں کی پابندیوں کی کیفیت/شرائط (الشَّهْرِ‌ الْحَرَ‌امِ )کے بارے میں پوچھتے ہیں، اور اس کے دوران جنگ کرنے کے بارے میں بھی ۔ انہیں بتاؤ کہ ان پابندیوں کے دوران جنگ کرنا بہت غلط کام ہے۔ بلکہ اللہ کے راستے سے ہٹ جانا اور اس سے انکارکے مترادف ہے۔ نیز اللہ کے واجب التعمیل احکامات(وَالْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ) کا بھی انکار ہے اور اللہ کے احکامات کے دائرے سے اہلِ تسلیم و رضا (أَهْلِهِ) کا خارج ہوجانا اللہ کے نزدیک گناہِ کبیرہ ہے ۔ نیز کسی بھی امر میں جماعت میں انتشار یا بے اتفاقی (الْفِتْنَةُ)پیدا ہونا قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ اگرچہ وہ لوگ تم سے محاذ آرائی اس وقت تک نہ چھوڑیں گے جب تک کہ تمہیں تمہارے دین سے ممکنہ طور پر برگشتہ نہ کر دیں ، لیکن تم میں سے جو بھی اپنا دین چھوڑ دے گا اور کفر کی حالت میں مر جائیگا، تو وہ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں اپنے اعمال ضائع کر دے گا ۔ ایسے لوگ آگ کی مانند جلانے والے عذاب کےمستحق ہوتے ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہینگے۔"
٭3/95-97: آلِ عمران
قُلْ صَدَقَ اللَّـهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَ‌اهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٩٥﴾ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَ‌كًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ ﴿٩٦﴾ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَ‌اهِيمَ ۖ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ‌ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ﴿٩٧﴾
٭(یہ آیات بھی بنی اسرائیل ہی کی تاریخ ہی کا ذکر کر رہی ہیں اور اس تاریخ کو کوئی تعلق نہ مکہ سے ہے اور نہ ہی عرب قوم سے ۔ رسول سے کہا جا رہا ہے کہ انہیں یاد کراؤ کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا تھا۔ اس ذاتِ پاک پر جھوٹ کی افترا مت لگاؤ (3/94)۔ حضرت ابراہیم تمہاری مانند مشرک نہ تھے۔ تم انہی کا بتایا ہوا سیدھا راستہ اختیار کرو (3/95)۔۔۔۔۔۔۔)
"کہدو کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے۔ لہذا تم سب ابراھیم کے اختیار کردہ سیدھے راستے کا اتباع کرو کیونکہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ درحقیقت وہ پہلا ادارہ/مرکز (بَيْتٍ )جو انسانوں کی منفعت کے لیے تشکیل دیا گیا تھا (وُضِعَ لِلنَّاسِ)، جو لازمی طور پر مزاحمت کرنے اور کچل دینے کی قوت رکھتا تھا (لَلَّذِي بِبَكَّةَ )، نشوونما اور استحکام دینے والا اور تمام انسانیت کیلیے ضابطہِ کردار تھا، اس کی تشکیل میں ابراھیم کے بلند مرتبے و منصب (مَّقَامُ )کی واضح نشانیاں تھیں۔ اس لیے جو بھی اس کے دائرہ اثر میں داخل ہوا تھا، امن کے سائے میں آ گیا تھا۔ پس اللہ کے قرب کی خاطر تمام انسانوں پر فرض کیا گیا تھا کہ ان میں سے جس کو بھی ایسا موقع میسر آجائے تو وہ الہامی مرکزِ فکر و ِ ہدایت (حِجُّ الْبَيْتِ) کا قصد ضرور کرے ۔ پس جس نے اس حکم کا انکار کیا تھا تو جان لے کہ اللہ کسی کا محتاج نہیں کیونکہ وہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔"
3/183: آلِ عمران
الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَ‌سُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْ‌بَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ‌ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُ‌سُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٨٣﴾
"یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ اللہ نےہم سے عہد کیا تھا کہ ہم اس وقت تک کسی رسول پرایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے پاس سوختنی قربانی لے کر نہ آئے ۔ ان سے کہو کہ تمہارے پاس مجھ سے قبل رسول آ چکے ہیں، کھلی نشانیوں کے ساتھ اور ان چیزوں کے ساتھ جو تم نے مطالبے کیے تھے، پھر تم کیوں ان سے جھگڑتے رہے ہو اگر تم سچے تھے ۔ "
(قارئین کے لیےنوٹ: یہ سوختنی قربانی کا مطالبہ اُن لوگوں کا تھا، اور جھوٹ پر مبنی تھا ۔ اس لیے یہاں سے قربانی کی رسم کے جواز کا کوئی اثبات نہیں ہوتا۔قربانی کا لفظ ان معنوں میں قرآن میں اور کہیں نہیں پایا جاتا۔اس کا مادہ ق ر ب ہے۔ اور "قربان" اللہ کا قرب حاصل کرنےوالے عمل کو کہا گیا ہے۔)
5/2: المائدہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ وَلَا الشَّهْرَ‌ الْحَرَ‌امَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّهِمْ وَرِ‌ضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢﴾
"اس لیے، اے ایمان لانےوالو، تم خود کو اللہ کے بتائے ہوئے شعائر یعنی طور طریق ، صفات و خصوصیات کی پیروی سے آزاد نہ کیاکرو۔ نہ ہی معاہدوں کی رو سے عائد شدہ پابندیوں کی صورتِ حال یا کیفیت [الشَّهْرَ‌ الْحَرَ‌امَ]سے بری الذمہ ہو جایا کرو ۔ نہ ہی حسنِ سیرت کے قیمتی اصولوں [الْهَدْيَ] کو نظر انداز کرو۔ نہ ہی خود پر عائد دیگر ذمہ داریوں سے[الْقَلَائِدَ] احتراز کرو، اور نہ ہی اپنے واجب الاحترام مرکز کے ان ذمہ داروں [آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَ‌امَ ] سے غافل ہو جاءو جو اپنے نشوونما دینے والے کے فضل اور رضامندی کے لیے جدو جہد کر رہے ہوں۔ البتہ جب تم کسی بھی معاہدے کی پابندیوں سے آزاد ہو جاءو [حَلَلْتُمْ] تو پھر ضرور اپنی طاقت و اقتدار قائم کرنے میں [فَاصْطَادُوا] لگ جاءو۔ لیکن اس صورت میں بھی ایک قوم کی وہ دشمنی کہ انہوں نے تمہیں واجب التعمیل احکامات ِ الٰہی[الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] کی بجا آوری اور نفاذسے روک رکھا تھا ،تمہیں اس جرم پر مجبور نہ کردے کہ تم حدود سے تجاوز پر اُتر آو [أَن تَعْتَدُوا] ۔ بس یہ امرپیشِ نظر رہے کہ ہمیشہ کشادِ قلب اور کردار سازی کے مدعے [الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ] پر اشتراکِ عمل کرو اور گناہ اور حدود فراموشی پر دستِ تعاون دراز مت کرو۔ اللہ کی ہدایات کے ساتھ پرہیزگاری کے جذبے سے وابستہ رہو۔ یہ حقیقت سامنے رہے کہ اللہ کا قانون گرفت کرنے میں بہت ہی سخت ہے ۔"
8/34-35: الانفال
وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّـهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌هُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٤﴾ وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ۚ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُ‌ونَ ﴿٣٥﴾
"اللہ کیوں انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے گا کیونکہ یہ احکاماتِ الٰہی (الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ)کی بجا آوری میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور یہ ہرگز اللہ کے دوست نہیں ہو سکتے۔ دراصل اللہ کے دوست تو وہی ہو سکتے ہیں جو اس کے احکامات کی تعمیل یعنی پرہیزگاری(الْمُتَّقُونَ) کرتے ہیں۔ لیکن اِن کی اکثریت اس حقیقت کا علم نہیں رکھتی۔ الہامی مرکزِ فکر و ہدایت میں(عِندَ الْبَيْتِ) آ کر ان کا بولنا اور شکایت و فریاد کرنا(صَلَاتُهُمْ) سوائے لا یعنی چیخ و پکار کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ پس ، انہیں بتا دو کہ تم اپنے تکفیری موقف کا عذاب ضرور چکھو گے۔"
9/7: التوبۃ
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِ‌كِينَ عَهْدٌ عِندَ اللَّـهِ وَعِندَ رَ‌سُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ﴿٧﴾
"مشرکین کے حق میں کیا گیا کوئی عہد نامہ کیسے حکومتِ الٰہیہ کو منظور ہو سکتا ہے، سوائے ایسے عہد نامے کے جوتم نے ان لوگوں کے ساتھ قرآن (المسجد الحرام) کے مطابق یا احکاماتِ الٰہیہ کی رُو سے یا پھر قابلِ احترام مرکزِ اطاعت میں کیا ہو۔ اس لیے جو اقدام/پالیسی تمہارے لیے استقامت کا ذریعہ بنے، ان لوگوں کے ساتھ اسی پالیسی پر قائم رہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں سے محبت رکھتا ہے۔ "
14/35-37: ابراہیم
وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌اهِيمُ رَ‌بِّ اجْعَلْ هَـٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ ﴿٣٥﴾
"اور یاد کرو وہ وقت جب ابراھیم نے عرض کیا کہ اے رب اس خطہِ زمین [الْبَلَدَ] کو امن کا گہوارہ بنا دے اور میری اور میرے بیٹوں [بَنِيَّ] یعنی جانشینوں کی مدد فرما کہ ہم ان تمام خود ساختہ خیالات و نظریات [الْأَصْنَامَ ]سے دور رہیں جو ہمیں اللہ کی محکومیت سے بیگانہ کر دیں [أَن نَّعْبُدَ َ] "۔(35)
(یہاں "اس خطہِ زمین" سے مکہ مراد لینا انتہائی دور از کار اور بلا جواز ہے کیونکہ ایسا کوئی موہوم اشارہ بھی موجود نہیں ہے ۔ یہ حضرت ابراھیم کے وطن کا ذکر ہے)
رَ‌بِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرً‌ا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣٦﴾
"اے رب، یہ وہ خود ساختہ نظریات ہیں جنہوں نے انسانوں کی اکثریت کو گمراہ کر دیا ہے ۔ پس جو بھی صرف میرا اتباع کرے گا صرف وہ ہی میری جماعت سے ہوگا، اور جس نے بھی میری معصیت کا ارتکاب کیا تو اس کی نجات کےلیے تُو سامان ِ حفاظت اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔ "
رَّ‌بَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّ‌يَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّ‌مِ رَ‌بَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٧﴾
"اے ہم سب کے پالنے والے، میں نے اپنی آل اولاد [مِن ذُرِّ‌يَّتِي] کو تیرے قابلِ احترام نظریاتی مرکز [بَيْتِكَ الْمُحَرَّ‌مِ ]کے پاس ایک ایسی سوچ اور مسلک رکھنے والوں میں [بِوَادٍ] بسا دیا ہے جہاں تیری ہدایت کا بیج ڈالنے کے لیے زمین تیار نہیں کی گئی ہے [غَيْرِ‌ ذِي زَرْ‌عٍ] ۔ اے ہمارے رب یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ یہاں کے لوگوں میں تیرے احکامات کی پیروی کا نظام قائم کر دیں [لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ ]۔ پس تجھ سے گذارش ہے کہ تُو یہاں کے لوگوں کے شعوری رحجانات [أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ]کو ان کے مشن کی جانب پھیر دے، اور پھر انہیں اس کےخوشگوار نتائج سے بہرہ ور فرما دے [وَارْ‌زُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَ‌اتِ] تاکہ ان کی کوششیں بار آور ہوں [يَشْكُرُ‌ونَ ]۔"
22/25-34: سورۃ الحج
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِ‌دْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٢٥﴾ وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَ‌اهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِ‌كْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ‌ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّ‌كَّعِ السُّجُودِ ﴿٢٦﴾ وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِ‌جَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧﴾ لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ‌ ﴿٢٨﴾ ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٢٩﴾ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُ‌مَاتِ اللَّـهِ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّهُ عِندَ رَ‌بِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّ‌جْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ‌ ﴿٣٠﴾ حُنَفَاءَ لِلَّـهِ غَيْرَ‌ مُشْرِ‌كِينَ بِهِ ۚ وَمَن يُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ‌ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ‌ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّ‌يحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ ﴿٣١﴾ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾ لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٣٣﴾ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾
"وہ لوگ جنہوں نے انکار کی روش اپنائی اور اللہ کے اس راستے سے (عَن سَبِيلِ اللَّـهِ )اور واجب التعمیل احکاماتِ الٰہی کی بجا آوری (وَالْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ) کے اس فریضے سے روکتے ہیں جو ہم نے انسانوں کے فائدے کے لیے پیش کیا ہے، اور جو اس مشن کے نظم و ضبط سنبھالنےکے ذمہ داروں (الْعَاكِفُ فِيهِ)اور یہاں تعلیم کی شروعات کرنے والوں سب کے لیے مساوی اہمیت کا حامل ہے، سو وہ جان لیں کہ جوبھی اس معاملے میں ناحق طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے(بِظُلْمٍ ) کج روی اختیار کرے گا، یعنی صحیح راستے سے ہٹنے کا ارادہ کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے﴿٢٥﴾۔"
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَ‌اهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِ‌كْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ‌ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّ‌كَّعِ السُّجُودِ ﴿٢٦﴾
"اور یاد کرو جب ہم نے ابراھیم کے لیے مرکزِ فکر و ہدایت کے قیام (مَكَانَ الْبَيْتِ) کا تعین کر دیا تھا تاکہ میری ذات کے ساتھ یعنی میری اتھارٹی و وحدانیت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے، اور میرے مرکزِ فکر و ہدایت (بَيْتِيَ )کو اس کی نگرانی/نگہبانی کرنے، اس کو صحیح شکل میں قائم رکھنے اور اس کے سامنے جھکنے اور عاجزی کرنے والوں کے لیے غیر الٰہی نظریات سے پاک رکھا جائے۔"
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِ‌جَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧﴾
"اور حکم دیا تھا کہ انسانوں کے درمیان حجیت کا [بِالْحَجِّ ]اعلانِ عام کر دو۔ وہ سب تمہارے پاس ہر دور دراز کے مقام سے [مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ] دلیری کے ساتھ [رِ‌جَالًا]آئیں اور ہر ایک اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آئے [وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌] ،"
لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ‌ ﴿٢٨﴾
"تاکہ اس نظریہِ حیات میں وہ اپنے لیے منفعت کا بذاتِ خود مشاہدہ کرلیں اور تحصیلِ علم و تربیت کے ایک دورانیئے [فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ] میں اللہ کی صفات عالی کو ذہن نشین کرتے رہیں تاکہ اس کی روشنی میں ان تعلیمات پر حاوی آ جائیں [عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم ] جس نے انہیں جانوروں کی مانند غیر یقینی اور مبہم روشِ زندگی [بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] اختیار کرنے پر لگا دیا تھا۔ پس وہ اسی علم کی روشنی سے استفادہ کریں اور جو اس سے محروم اور بدحال ہیں انہیں بھی مستفید کریں ۔"
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٢٩﴾
"پھر اس کے بعد اپنی ذہنی الائشوں سے پاکیزگی [تَفَثَهُمْ]کا کام تکمیل تک پہنچائیں [لْيَقْضُوا ]، اپنے اوپر واجب کیے ہوئے عہد کو پورا کریں [وَلْيُوفُوا نُذُورَ‌هُمْ ] اور حکومتِ الٰہیہ کے محترم و متقدم مرکز (ِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ) کی نگہبانی اور حفاظت [وَلْيَطَّوَّفُوا]کا فریضہ انجام دیں ۔"
ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُ‌مَاتِ اللَّـهِ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّهُ عِندَ رَ‌بِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّ‌جْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ‌ ﴿٣٠﴾
"اس کے علاوہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ ممنوعات [حُرُ‌مَاتِ اللَّـهِ]کی تعظیم کا رویہ اختیار کرے گا تو وہ اللہ کے نزدیک اس کے حق میں خیر کا باعث ہوگا۔ نیز تمہارے لیے اللہ کی عطا کردہ تمام نعمتیں اور عطیات [الْأَنْعَامُ] حلال کر دیے گئے ہیں ماسوا ان مخصوص امور کے جن کی پیروی/اتباع کرنے کے لیے تم پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے، یعنی جن کا تمہیں پابند کیا گیا ہے۔ پس پرستش اور عقیدت کےمراکز بنانے [الْأَوْثَانِ ] کی برائی سے اجتناب کرو اور اجتناب کرتے رہو ایسی زبان بولنے سے جو جھوٹ سے پُر ہو ۔"
سورہ الحج : ۳۲ سے ۳۸
ذَٰلِكَ۔۔۔۔۔۔ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾
"اور جو لوگ اللہ کے ہدایت کردہ راستے یا طور طریق کی عظمت کو بلند کریں گے، وہ اسے تقویتِ قلوب کا ذریعہ پائیں گے۔"
لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٣٣﴾
"اسی راستے میں تم سب کے لیے ایک معینہ مدت تک منفعت ہے۔پھر اس ہدایت کا مستقل مرکز و منبع اللہ کا محترم و متقدم مرکزِ ہدایت [الْبَيْتِ الْعَتِيقِ]ہے۔"
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ‌ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾
"نیز ہم ہر قوم کے لیے پاکیزگیِ ذات کے ذرائع/طریقے/اصول [مَنسَكًا ]پیش کر دیے ہیں تاکہ وہ اللہ کی صفاتِ عالی کو ذہن نشین کریں [لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ] اور اس کی روشنی میں جانوروں کی مانند غیر یقینی یعنی مبہم روشِ زندگی [بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ] پر حاوی آ جائیں جس کی انہیں تربیت دی گئی تھی[مَا رَ‌زَقَهُم]،یعنی جو کچھ انہوں نے سابقہ زندگی میں سیکھا تھا۔ اور وہ یہ سمجھ لیں کہ تمہارا اللہ ہی اصل حاکم ہے۔ اس لیے اسی کی ہدایات پر سرِ تسلیم خم کر دیں۔ جو اس معاملے میں عاجزانہ اور تابعدارانہ روش رکھتے ہوں ان کو فوری نتائج کی خوشخبری دے دو۔ "

22/40-41: الحج
الَّذِينَ أُخْرِ‌جُوا مِن دِيَارِ‌هِم بِغَيْرِ‌ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَ‌بُّنَا اللَّـهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ‌ فِيهَا اسْمُ اللَّـهِ كَثِيرً‌ا ۗ وَلَيَنصُرَ‌نَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُ‌هُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ﴿٤٠﴾ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُ‌وا بِالْمَعْرُ‌وفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ‌ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ‌ ﴿٤١﴾
"۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی بستیوں سے ناحق نکال دیے گئے تھےصرف اس بنا پر کہ وہ کہتے ہیں اللہ ہمارا پروردگار ہے ۔عمومی طور پر تو انسانوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی انسانوں کی ایک جماعت کا دوسری جماعت کے ذریعے دفاع نہ فرماتا تو ،،،،،محبت بھرے اصرار،منت و التجا سے روک لینا(صَوَامِعُ )، ،،،،،وفاداری اور وابستگی کےعہد و پیمان کرنا(بِيَعٌ)،،،،، ستائش/رحمت/تحسین و آفرین (صَلَوَاتٌ) کرنا، اور،،،،،،تعظیم/فرماں برداری/عاجزی/انکساری (مَسَاجِدُ) کا شعار اختیار کرنا جیسی اعلیٰ انسانی اقدار کی عظیم عمارت منہدم کر دی جاتی جن کے رواج و پیروی میں کثرت سے اللہ کی صفات کو پیش نظر رکھا جا تا ہے۔ پس اللہ ان کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کے مقاصد کی تکمیل میں مدد گار ہوتے ہیں، کیونکہ اللہ طاقتور اور مقتدر ہے ۔ مذکورہ لوگ تو وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم نے انہیں زمین پر تقرر/قیام عطا کر دیا تو یہ احکامِ الٰہی کی اطاعت و پیروی کا نظام قائم کریں گے، عوام کوسامانِ پرورش و نشوونما فراہم کریں گے، اچھائی کا حکم دیں گے اور برائیوں کو ممنوع کردیں گے۔ اور اس نظام میں تمام امور کی نگرانی اللہ کےا حکامات کے مطابق ہوگی۔"
الفتح: 48/25:
هُمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِ‌جَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّ‌ةٌ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَ‌حْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٢٥﴾
"یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کی روش اپنائی تھی، تمہیں احکاماتِ الٰہی(الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ )کی پیروی سے روکا، اور حسنِ سیرت کے قیمتی اصولوں (َالْهَدْيَ) کو اپنی صحیح جگہ تک پھیل جانے سے روکا تھا۔کیونکہ وہاں ایسے مومن مرد و خواتین تھے جنہیں تم نہیں جانتے تھے،اس لیے اندیشہ تھا کہ نادانستگی میں وہ تمہارے ہاتھوں نقصان اٹھا کر تمہیں ندامت کا شکار بنادیتے۔ اللہ تعالی تو لازمی طور پر ہر ایک کو جو بھی ایسا چاہے اپنی رحمت میں داخل فرمالیتا ہے، لیکن اگر یہ لوگ دوسروں سےعلیحدہ کیے جاسکتے تو ان میں سے باقی جو کفر کرنے والے رہ جاتے انہیں ہم نے ضرور دردناک عذاب میں مبتلا کیا ہوتا۔ ۔"
--- --- --- --- --- --- --- ---

موضوع کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ذیل میں" حج" سے متعلق وہ آیات مندرج ہیں جن کا تراجم کی قسط نمبر 8 میں قبل ازیں ترجمہ ہو چکا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ بعد ازاں تحقیقی مقاصد کے لیے بریکٹ زدہ الفاظ کے مستند معانی بھی دے دیے گئے ہیں۔

2/189 : البقرۃ

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩﴾

"وہ تم سےدین اللہ سے متعلق اصولوں کی بلند آواز میں کھلے عام تبلیغ [الْأَهِلَّةِ] کی حکمت کے بارے میں سوال کریں گے۔ انہیں بتا دو کہ وہ وقت آ گیا ہے جب کھلےاعلانات کےذریعےانسانوں کے روحانی ارتقاء کیلیے ان کو اکٹھا کیا جائے[مَوَاقِيتُ للناس] اور دلائل و حجت کے ذریعے ابدی سچائی کے یقین تک پہنچا جائے[الحج]۔ اس لیے اطاعت و احسان کا عملی ثبوت یہ نہیں کہ تم ان تعلیمات کومعاشرے کے اشراف یا اعلیٰ خاندانوں[الْبُيُوتَ] تک چور دروازوں سے [ظُهُورِ‌هَا] یعنی خاموش اور خفیہ انداز میں لے کر جاءو۔ بلکہ اطاعت و احسان کا عملی راستہ تو اس کا ہے جس نے پرہیزگاری سے کام لے کر اپنے نفس کو مضبوط رکھا ۔ پس اپنی اشرافیہ میں دلیری کے ساتھ اپنا پیغام سامنے کے دروازوں کے ذریعے یعنی کھلے اعلان کے ذریعےلے جاءو۔ بلند درجات تک پہنچنے کا راستہ یہی ہے کہ اللہ کی راہنمائی کو ذہن میں رکھو تاکہ تم کامیابیاں حاصل کر سکو۔"

2/196-200: البقرۃ

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْ‌تُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُ‌ءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِ‌يضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّ‌أْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَ‌ةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَ‌جَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِ‌ي الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿١٩٦﴾

"نیز اللہ تعالیٰ کی منشاء پوری کرنے کے لیے [لِلَّـهِ] اُسکے عطا کردہ نظریہِ حیات کے بارے میں اپنی بحث و دلائل مکمل کرلو [وَأَتِمُّوا الْحَجَّ ] اور پھر اس کی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارو [الْعُمْرَ‌ةَ]۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ناسازگار حالات کے حصار میں قید ہو جاو اوریہ فریضہ ادھورا رہ جائے تو پھر سیرت و کردار کے جو بھی محترم اور قیمتی اصول[الْهَدْيِ] میسر ہوں ان پر عمل پیرا رہو۔ اور ان حالات میں اپنے سرکردہ لوگوں کا گھیراو بھی نہ کرو جب تک کہ راہنمائی کے قیمتی اصول و قواعد پھیل نہ جائیں [یبُلغُ ]اورمضبوطی سے اپنی جگہ نہ بنا لیں [مَحِلَّهُ]۔ اس کے باوجود اگر تم میں سے کوئی ابھی اپنے ایمان و یقین کے معاملے میں کسی کمزوری یا شبہ میں مبتلا ہو، یا اپنے سربراہ کی طرف سے کسی تکلیف یا سزا کا مستوجب ہوا ہو تو وہ اس کی تلافی [فَفِدْيَةٌ] اس طرح کرے کہ پرہیز کی تربیت حاصل [ صِيَامٍ ] کرے ، یا اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھائے [صَدَقَةٍ ]، یا اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل [ نُسُكٍ] سرانجام دے۔ جب تم امن و سکون کی صورتِ حال میں واپس آ جاو،تو پھر جس نے حق کی پیروی اور ترقی میں زندگی گزاری اور دلائل و حجت تک کے عمل سے فائدہ اٹھا لیا ہوتو اس کو جو بھی راہنمائی کے قیمتی اصول میسر آ گئے ہوں وہ ان پر کاربند رہے۔ اور جس کو یہ سب حاصل نہ ہواہو تو وہ حجت کے عمل کے ضمن میں تین ادوار کی پرہیزگاری کی تربیت حاصل کرے۔ اگر تم اس مشن سے رجوع کر چکے ہویعنی اس فریضے کو ترک کر چکے ہو تو پھر از سرِ نومتعدد بار [سَبْعَةٍ] کی پرہیزی تربیت ضروری ہوگی۔ معاشرے کے ارتقائی مرحلے کی تکمیل [عَشَرَ‌ةٌ كَامِلَةٌ ] کا یہ ہی طریقہ ہے۔ یاد رہے کہ یہ تمام طریق کار اُن مخصوص افراد کے لیے تجویز کیا گیا ہے جن کی اہلیت یا استعداد ابھی واجب التعمیل احکامات الٰہی کو تسلیم کرنے [الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ] یا ان کی مکمل اطاعت پر کاربند رہنے [حَاضِرِ‌ي] کے لیے کافی نہیں ہے۔ البتہ تم سب اجتماعی طور پر اللہ کے قوانین کی نگہداشت کرتے رہو اور یہ جان لو کہ اللہ کی گرفت شدید ہوتی ہے۔"

الْحَجُّ أَشْهُرٌ‌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَ‌ضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَ‌فَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ‌ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ‌ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٧﴾

"اللہ کی راہنمائی کو سمجھنے کے لیے تحقیق و حجت کرنے [الْحَجُّ] کا طریقہ کار بہت معروف ہے [أَشْهُرٌ‌ مَّعْلُومَاتٌ ] اور جو بھی اس طریقہ کار کی رُو سے حجت و تحقیق خود پر واجب کر لے تو یاد رہے کہ حجیت/بحث و تحقیق کے معاملے میں نہ قانون شکنی، نہ ہی لڑائی جھگڑا اور نہ ہی بدزبانی کی اجازت ہے۔ پس اس معاملے میں تم جو بھی اچھائی کا طریق کار اختیار کروگے وہ اللہ کے ریکارڈ میں درج ہو جائیگا۔ تو آو آگے بڑھو کیونکہ بہترین ارتقاء کا راستہ تقویٰ میں ترقی ہے۔ پس اے اہلِ علم و دانش تقویٰ اختیار کرو۔ "

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّ‌بِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَ‌فَاتٍ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ عِندَ الْمَشْعَرِ‌ الْحَرَ‌امِ ۖ وَاذْكُرُ‌وهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ ﴿١٩٨﴾

"اس فریضے کی تمام کاروائیوں کے دوران تم پر قطعا ممنوع نہیں اگر تم اپنے رب کا فضل بھی تلاش کرتے رہویعنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہو۔ جب تم اعتراف و اقرار کے مرحلے [َعرَ‌فَاتٍ] تک پہنچ کر صدقِ بسیط سے مالا مال ہو جاو [أَفَضْتُم] تو ایسے طور طریق یا رسومات کا سامنا کرنے پر جو ممنوع/ناجائز ہوں (عِندَ الْمَشْعَرِ‌ الْحَرَ‌امِ )اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پیشِ نظر رکھو اور اُن سے اُسی طرح نصیحت حاصل کرو جیسے اس نے تمہیں راہنمائی دی ہے، خواہ قبل ازیں تم اس ضمن میں گمراہی میں رہےتھے۔ "

ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُ‌وا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٩٩﴾

"بعد ازاں اپنے حاصل کردہ علم کو پھیلا دو(أَفِيضُوا ) ایسے کہ جس کیفیت میں انسان پھیلے ہوئے، زمین پرآزادی سے نقل و حرکت کرتے ہیں ۔ اور اللہ سے تحفظ مانگتے رہو۔ بیشک اللہ تحفظ اور رحمت عطا کرنے والا ہے۔"

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُ‌وا اللَّـهَ كَذِكْرِ‌كُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرً‌ا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَ‌بَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنْ خَلَاقٍ ﴿٢٠٠﴾

"پھر اگر تم نے اپنی ذات کی تطہیر کا عمل سر انجام دے لیا تو اس کے بعد بھی اللہ کے قوانین کو یاد کرتے رہو جیسے کہ تم اپنے اسلاف /مشاہیرکو یاد کیا کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ شدت سے یاد کرو۔ اس لیے کہ تم لوگوں میں ایسے بھی انسان موجودہیں جو اصرار کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں ہی تمام مال و متاع حاصل ہو جائے۔ تو یاد رہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اگلے بلند تر درجہِ زندگی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔"
سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۳ اور ۴
وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ‌ أَنَّ اللَّـهَ بَرِ‌يءٌ مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ۙ وَرَ‌سُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ‌ مُعْجِزِي اللَّـهِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣﴾ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُ‌وا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ
"اللہ اور رسول کی جانب سے تمام انسانیت کے لیے، اللہ کے دین کی اتمامِ حجت کے لیے عطا کیے گئے اس عظیم موقع (يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَر) پر یہ اعلان عام کیا جاتا ہے کہ اب اللہ اور اس کا رسول مشرکین کی جانب سے عائد تمام اخلاقی اور تزویراتی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو چکے ہیں ۔ اس لیے اب اگر تم صحیح راستے کی جانب لوٹ آتے ہو تو وہ تمہارے لیے خیر، یعنی امن اور خوشحالی کا باعث ہوگا ۔ لیکن اگر تم اب بھی اس جانب سے اپنا منہ موڑ لیتے ہو ، تو یہ اچھی طرح جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکو گے۔ اے نبی ، حق کا انکار کرنے والوں کو دردناک سزا کی نوید دے دو، سوائے ان مشرکین کے جن کے ساتھ تم نےعہد نامے کیے ہیں، اور جنہوں نے بعد ازاں تمہارے ساتھ ان عہد ناموں کی پابندی میں کوئی کمی نہیں کی ہے، اور نہ ہی ان میں سے کسی نے تم پر فوقیت یا غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تم اب بھی پابند ہو کہ اپنے عہد نامہ کی مدت کو پورا کرو ۔"
اور اب بریکٹ زدہ الفاظ کے مستند معانی:-
[الْأَهِلَّةِ]: پکار، اعلانات؛ معرف باللام ہونے کی جہت سے دین اللہ سے متعلق مخصوص اصولوں کی بلند آواز میں تشہیر۔
[مَوَاقِيتُ]: واحد:میقات؛ اکٹھا کیے جانے کا وقت/وعدہ/مقام، کسی کام کے لیے مقررہ جگہ/وقت۔
[الْبُيُوتَ]: معرف باللام؛ اشراف، اعلیٰ خاندان/حکمران خاندان/ادارے،عبادت گاہیں؛ عمومی معنی بیت کی جمع،وغیرہ-
[ظُهُورِ‌هَا]: بیک ڈور سے یعنی چور دروازے سے-
[عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَ‌امِ]: مقدس، محترم، واجب التعمیل/پابندی والے احکاماتِ /معاہدے-
[الشَّهْرُ‌ الْحَرَ‌امُ]: پابندیوں لاگو ہونے کی معلوم کیفیت یا حالات یا شرائط-
[لِلَّـهِ] : اللہ کی منشاء پوری کرنے کے لیے-
[وَأَتِمُّوا الْحَجَّ ]: حج: حجت تمام کرنا؛ الحج : اللہ کے عطا کردہ نظریے کے بارے میں اپنی حجت یعنی دلیل و برہان مکمل کرنا۔
[الْعُمْرَ‌ةَ]: عمرہ: زندگی/عمر گذارنا؛ العمرۃ: ایک خاص نظریےکی ترویج و ترقی کے لیے زندگی گزارنا ۔
[فَفِدْيَةٌ]: بدل /تلافی -
[ صِيَامٍ ] : پرہیز /اجتناب /بچنے/رکنےکا نظام وتربیت ۔
[صَدَقَةٍ ]: اپنے برحق موقف کو ثابت کر دکھانا ۔
[الھدیُ ]: عمومی: وہ قربانی جو جانور کی صورت میں حرم میں کی جاتی ہے۔ قرآن کی اس آیت: حتٰی یبلغ الھدیُ محلہ: میں الھدی کو مخفف اور مشدد دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اس کا واحد ھدیۃ اور ھدِیۃ ہے ۔ کہا جاتا ہے: ما احسن ھدیتہ: اس کی سیرت کس قدر اچھی ہے۔ مزید معانی : تحفہ ، نذرانہ، عطیہ، اسیر، قیدی، صاحبِ عزت، سیرت، طریقہ، بھیجنا، anything venerable or precious۔
[ نُسُكٍ]: اپنی ذات کی پاکیزگی کا عمل، purify/wash oneself, to lead a devout life, be pious.
[الْحَجُّ]: دین اللہ پر یقین لانے کے لیے تحقیق، دلائل و حجت
[أَشْهُرٌ‌ ]: بہت معروف طریق کار ، best known, apparent, conspicuous, manifest, notorious
[َعرَ‌فَاتٍ] : پہچاننا، تسلیم کرنا، اقرار کرنا، سوسائٹی کا رسم و رواج، شائستہ، صحیح، اعتراف، رکنے کی جگہ۔
[أَفَیضْو] : بھر جانا، بھر کر باہر گرنا، کھل جانا، واپس آنا، انڈیلنا، پھیلانا، آزادی سے بہنا، بھیڑ کیساتھ ایک سے دوسری جگہ جانا۔

ختم شد