اورنگزیب یوسفزئی ستمبر 2016

 

قرآن کے موضوعاتی تراجم کی قسط نمبر 34
Thematic Quranic Translation Series Installment No.34

 

قرآن میں "ما ملکت ایمانکم" سے کیا مراد ہے ؟ لونڈیاں اور غلام؟؟
What is meant in Quran by “Maa Malakat Ayimaanu-kum”? Slaves?

اس خاص قرآنی اصطلاح سے ہمارے قدماء و متاخرین اور ہم عصر سکالرز کو بالعموم "لونڈیاں" یعنی غلام عورتیں مراد لیتے دیکھا گیا تو ماں کا عظیم رتبہ رکھنے والی صنف کی اس ظالمانہ تذلیل پر دل غم سے بھر گیا ۔ یہ نوٹ کیا گیا کہ تقریبا ہرسابقہ تحقیقی اور تحریری کام میں اس اصطلاح کو ۔۔۔۔" داہنے ہاتھ کی ملکیت"۔۔۔۔ کی تعریف سے متصف کیا گیا ۔ اور پھر اس مفروضہ "ملکیت" کی ذیل میں انسانوں کو لے آیا گیا ۔۔۔اور انہیں لونڈی اور غلام کہ کر پکارا جانے لگا۔ گویا کہ یہ ثابت کیا گیا کہ اللہ نے بعض انسانوں کو بعض دیگر انسانوں کی ملکیت میں دے کر ایک پست کلاس کی انسانی نوع بھی بنا دی ہے تاکہ مالدار طبقات اس زر خرید نوعِ انسانی کے ساتھ بُری بھلی جو چاہیں کرتے رہا کریں ؟؟؟؟؟
مقامِ حیرت ہے کہ پھر بھی اس دین کے نام لیوا صریح منافقت سے کام لیتے ہوئےاسی قرآن سے تمام انسانوں کو واجب التکریم قرار دینے کی تعلیم پھیلاتے پھرتے ہیں اور قرآن سے حوالہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیِ نے فرمایا ہے کہ "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ" [۱۷/۷۰] ۔؟؟؟

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی کون سی نص سچی ہے اور کون سی نعوذ باللہ "جھوٹی "؟؟؟ آیا کہ انسانوں کو دیگر انسانوں کی "داہنے ہاتھ کی ملکیت" میں دے کر غلام اور لونڈیاں پیدا کی گئی ہیں،،،،،، یا پھر تمام انسان آزادی کے وصف کے ساتھ "واجب التکریم" پیدا کیے گئے ہیں ؟؟؟

اس سوال پرقارئین کے فیصلے کے عمل میں مدد فراہم کرنے کے لیے قرآن کی ایک اور نص بھی یہاں پیش کردی جاتی ہے جہاں واضح الفاظ میں "دین کا دور " اُس وقت کو کہا گیا ہے جب کسی انسان کی کسی دوسرے انسان پر کوئی ملکیت نہیں ہوگی۔ غور فرمائیے آیت ۸۲/۱۹:۔

وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿١٧﴾ ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ﴿١٨﴾ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّـهِ ﴿١٩﴾۔ یعنی ""تم کیا ادراک رکھتے ہو کہ دین کا دور کیا ہے ۔۔ جب صرف اللہ ہی کا حکم نافذ ہوگا تو اُس وقت کسی انسان کو کسی انسان پر کسی قسم کی کوئی ملکیت حاصل نہیں ہوگی، اور وہی دور دین کا دور ہوگا ۔""
قارئین، ہمارے خالق کے کلام کی اس نص صریح سے صاف ظاہر ہے کہ وہ نہ تو دین کا دور تھا اور نہ ہی اللہ کا حکم نافذ تھا جب قرآن سے " ما ملکت ایمانکم" کی تعریف لونڈیوں اور غلاموں کی ملکیت کی صورت میں کی گئی۔ اور ایک بڑے ظلم اور باطل کو محض غاصب ملوکیت کی عیاشیوں کے لیے رواج دےدیا گیا ۔دین کا دور تو دراصل حضراتِ ابوبکر و عمر کی خلافتِ راشدہ کے ساتھ ہی ختم ہو چکا تھا۔ ان کے بعد کا دور تو صاحبِ جائداد اور صاحب اقتدار طبقہ کے مفادات کے تقاضوں کوپورا کرتا رہا ۔ لہذا قرآنی احکامات کی تفسیر جو فقہ اور حدیث کی روشنی میں کی گئی وہ عام طور پر منشاء اسلام کے خلاف معاشرہ کی طبقاتی اساس کو مضبوط کرتی رہی اور مترفین و مستکبرین کے مفادات کا تحفظ کرتی رہی ہے۔

پھر یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ تراجم و تفاسیر میں اسی قیاسی اور قدیمی سازشی تعریف کی بنیاد پر داخلی سوچوں کے تحت اس سے متعلق اور منسلک قرآنی متون کے بارے میں طول طویل تشریحات پیش کی گئی ہیں۔ اسلامی فقہ کی طرف نظر ڈالی تو لونڈیوں اور غلاموں کے بارے میں اتنا زیادہ مواد لکھا گیا ہے اور ان کے حق میں ایسی قانون سازی کی گئی ہے کہ غلامی اور خاص طور پر لونڈیوں کے موضوع کو ایک مضبوط ادارہ بنا دیا گیا ہے ۔ اور آمرانہ مسلم حکومتوں کے طویل و عریض دورانیے میں انہی فقہی احکامات کی آڑ لے کر کھلے عام انسانوں کی خرید و فروخت کو جائز مانتے ہوئے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق اور قرآنی احکامات کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب خواص و عوام کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے۔

یعنی قرآن کی رُو سے غلام اور لونڈیوں کے من گھڑت جواز کو بنیاد بنا کر اسلام کی محسنِ انسانیت آئیڈیالوجی کو ایک انسانیت کُش دین بنا دیا گیا اور ملوکیت کے استحصالی اقدامات نے کرایے کے فقہا کے ذریعے غلامی کو ایک مسلمہ ادارہ بنانے کے لیے نہایت تفصیلی قانون سازی کروائی تاکہ مترفین اور مستکبرین کا وہ طبقہ جو تلوار کے زور پر تمام ذراِئع پیداوار کا مالک بن بیٹھا تھا، اپنی انسانیت سوز من مانیاں کر سکے۔ تو آئیے جس اصطلاح سے قرآن کو غلامی کی اجازت دینے کا مجرم ٹھہرایا جا رہا ہے، اُس کا ایک بے لاگ علمی، تاریخی اور معاشرتی تجزیہ کر کے یہ ثابت کر دیا جائے کہ اس اصطلاح سے غلامی کا جواز نکالنا صرف اور صرف ایک شیطانی عمل تھا ۔
عرض یہ ہے کہ جب مرکزی تھیم theme یعنی "ما ملکت ایمانکم" کی تعریف ہی کو معروضی مادی حقیقت پر پرکھا نہیں گیا تو اُس سے آگے بڑھ کر جو بھی سوچ یا موقف اختیار کیا جائیگا اور جس قدر بھی موضوع پر فقہی احکامات صادر کیے جائیں گے وہ سب کچھ لازما بے بنیاد یعنی غلط ہوگا ۔ لیکن ایسا آج کے دن تک اسلام کی تاریخ میں کبھی نہیں کیا گیا ۔ یعنی ثابت ہوا کہ آج کے جدید ترین علمی دور میں بھی مسلمان ڈیڑھ ہزار برس پرانی استخراجی منطق اختیار کیے رہنے پر مصر ہے اور اس دیرینہ بیماری پر قابو پانے میں ناکام رہاہے۔ ہمارے بیشتر تراجم و تفاسیر اسی انداز میں ہم تک پہنچے ہیں ۔ اسی لیے ہم ایک گمشدہ اور پسماندہ قوم کی حیثیت سے زندہ ہیں۔ہمارے بڑوں نے کبھی یہ تحقیق کرنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ اللہ تبارک و تعالیِ کیسے اور کیوں کچھ انسانوں کو کچھ دوسروں کی غلامی میں دے سکتا ہے، جب کہ وہ اپنے صحائف کے ذریعے انسان کی آزادی اور حُرمت کا سب سے بڑا علمبردار ہے ۔
پس اس معروضی صورتِ حال میں ہم ذیل میں اس اصطلاح یا ترکیب کے حامل تمام متون کا مبسوط تجزیہ کرتے ہوئے تمام متعلقہ آیات مبارکہ اور ان کے جدید ترین قرینِ عقل معانی پیش کریں گے جنہیں کسی بھی مشاہدے اور تجربے کی کسوٹی سے گذارا جا سکے گا ۔ اور جن کے ذریعے غلاموں اور لونڈیوں کے دعوے دار اس فریب کار ملوکیتی اسلام کا، اور اس کی تکرار اور استمرار کے ذمہ داروں کا، جنازہ نکل جائے گا۔ حقیقی اسلام اپنی منزہ شکل میں تاریکیوں سے اُبھرتا ہر خاص و عام کو نظر آئیگا۔
دین کی حقیقت کو تلاش کرنے والے عزیز بھائیوں سے التماس ہے کہ یہ نہایت اہم پالیسی احکامات ہیں، ان کے تراجم کو ایک قیمتی حوالے کے طور پر محفوظ رکھیں۔یہ آئندہ زندگی میں آپ کے بہت کام آئیں گے۔ اب "ما ملکت ایمانکم" کے تمام قدیمی سازشی معانی کو غیر منطقی اور متروک قرار دیتے ہوئے، کہ جن سے عورت ذات کا ایک نہایت پست درجہ پیدا کرنے کا مذموم اور ہوس پرستانہ کام لیا گیا، اس ترکیب سے علم و دانش اور قرآنی سیاق و سباق کے مطابق انتہائی مستند تعریف یہ اخذ کی جاتی ہے :-

"وہ جو تمہاری قسم/حلف/عہد/ایگریمنٹ/کانٹریکٹ [ایمانکم] کے تحت تمہاری تحویل/نگرانی/سرپرستی/ماتحتی [ملکت] میں آتے ہوں،،،یا تمہارے لیے کام کرتے ہوں" ، یعنی مختصر اور جامع تعریف ہوگی :-
"کسی باہمی شرائط نامے کے تحت تمہاری ماتحتی/نگرانی/سرپرستی میں کام کرنے والے"۔

مادہ " ی م ن " بہت سے معانی رکھتا ہے مثلا
Ya-Miim-Nun = right side, right, right hand, oath, bless, lead to the right, be a cause of blessing, prosperous/fortunate/lucky..
اور یہاں سے ہی اس کا مشتق، الف پر زبر کے ساتھ، " ایمان" [Aymaan] اوتھ Oath ، یعنی قسم، حلف، عہد، کسی شرائط پر ایگریمنٹ، ایمپلائمنٹ کنٹریکٹ کے معنی دیتا ہے۔

نیز غور فرمائیں تو علم ہوگا کہ یہاں مرد اور عورت کی کوئی قید یا ذکر ہی نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم سب یہاں سے عورت کا معنی اخذ کر لیتے ہیں،،،، بلکہ تمام "لونڈیاں " یا غلام عورتوں کا وجود ہی یہاں سے اخذ کیا جاتا ہے ؟؟؟؟ پھر اُن کے ساتھ "جائز زنا" کا مزے لے لے کر اور تفصیل کے ساتھ ذکر چھیڑ دیا جاتا ہے۔ یعنی ان احکامات کو غلامی سے منسلک کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اسلام میں غلامی اور لونڈیاں رکھنا ایک عمومی روٹین ہے اور اسی لیے اس ضمن میں ہدایات و احکامات جاری کیے گئے ہیں ۔ از حد شرم کا مقام ہے ۔

ایک اور تاویل اسی استخراجی منطق کے حق میں یہ دی جاتی ہے کہ غلامی کا ذکر تو قرآن میں ماضی کے صیغے کے ساتھ آتا ہے کیونکہ ماضی میں وہاں غلامی رائج تھی اوروہ سلسلہ اسلام تک آ پہنچا تھا ۔ اس لیے ان پرانے غلاموں کے تصفیے کے لیے احکامات بھیجے گئے اور انہیں "ما ملکت ایمانکم" کی ترکیب سے پکارا گیا ۔ یہ ایک بے کار اور لنگڑی منطق ہے اور صرف ایک معذرت خواہانہ تاویل کہلانے کی حقدار ہے۔ کیونکہ صدر اول کے بہت بعد بھی، یعنی دوسری، تیسری اور چوتھی صدی ہجری تک کا پورا اسلامی فقہ غلاموں کے استعمال اور ان کی خرید و فروخت اور انہیں ایک دوسرے کو تحفتا یا عاریتا استعمال کے لیے دیے جانے کے احکامات وضع کرتا نظر آتا ہے ۔ اور تمام ملوکیتی محلات میں بنو امیہ سے لے کر ہندوستان کے مغل شہنشاہوں تک ایک کثیر تعداد زرخرید لونڈیوں اور غلاموں کی پائی جاتی رہی ہے۔
پھر یہ کہ غلامی کا انسداد تو قرآن نے ایک ہی جملے سے اپنے ڈسپلن کے نفاذ کی ابتدا ہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کر دیا تھا جب فرمایا [۸/۶۷]:
مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّـهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾
"نبی کے لیے یہ جائز ہی نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی پائے جائیں یہاں تک کہ خواہ اُس نے زمین کے بڑے حصے کو اپنے زیرِ نگیں کر لیا ہو [يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ] ۔ یہ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ تم لوگ دنیا کی آسائشوں کی خواہش رکھتے ہو اور اللہ تمہارے لیے آخرت کی سلامتی چاہتا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیِ غالب اور حکمت والا ہے۔ "
اِسرہ قیدیوں کو کہتے ہیں ۔ غلام دراصل قیدی ہی ہوا کرتے تھے کیونکہ اگر قید میں نہ رکھے جاتے تو راہِ فرار کیوں اختیار نہ کرتے؟

یہ بھی فرمایا کہ " [۴۷/۴] ءفَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا
""پس اپنے قیدیوں کو سختی سے جکڑ لو، بعد ازاں انہیں یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر یہاں تک کہ جنگِ خود اپنے ہتھیار اُتار دے۔""
لیکن ،،، پھر بھی بار بار "ما ملکت ایمانکم" کہ کر کس نوعِ انسانی کا ذکر کیا جاتا رہا ؟،،،،،، یہ شاید کسی نے بھی سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی ۔ درحقیقت ، جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی، یہ ماتحت اور ملازم یعنی ورکر [worker] طبقہ تھا جس کی فلاح کے لیے ہم سب کے خالق نے فکر کی اور بار بار ان کے حقوق کے تحفظ کی بات کی۔ اور اس ناچیز کی اس وضاحت کی بھرپور توثیق کے لیے،،،، اور اس اہم موضوع پر اتمامِ حجت کے لیے،،،، ملاحظہ فرمائیں ذیل کا فرمانِ الہی :- [آیت ۱۶/۷۱]

۱] وَاللَّـهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ ﴿٧١﴾
"اور بیشک اللہ کے قانون نے سامانِ نشو و نما یا معاش کے معاملے میں تم میں سے بعض کو دیگر پر برتری دی ہوئی ہوتی ہے ۔ پس جنہیں یہ فضیلت حاصل ہو اُن پر لازم ہے کہ اپنے حاصل کردہ سامانِ نشو و نما کو اُن لوگوں کی طرف لوٹا دیں [بِرَادِّي] جنہوں نے اس کے لیے اُن کی ماتحتی میں کام کیا ہے [مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ] تاکہ سبھی رزق کے معاملے میں برابری کی بنیاد پر [مساوی درجہ پر ] آ جائیں۔ کیا اب اس کے بعد بھی تم اللہ کی نعمتوں کا صرف اپنے لیے ڈھیر لگا لو گے [يَجْحَدُونَ] ؟؟؟؟"
یہاں آجر اور اجیر، یعنی مالک اور نوکر کے درمیان امارت اور غربت کا فرق مٹانے کے لیے اللہ رب العزت نے کتنا بڑا انقلابی حکم لاگو کیا ہے کہ جس پر خلوصِ نیت سے عمل کرنے میں انسانیت کے تمام دکھ ، آلام و مصائب بآسانی دور کیے جا سکتے ہیں ۔ طبقاتی فرق اور طاقتور اور کمزور طبقات میں تفاوت دور کرنے کے لیے شاید اس سے زیادہ عظیم اور عملی اقدام کوئی اور سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔۔ ۔ یعنی وہ تمام کمائی یعنی فالتو منافع جو ورکروں کی محنت کی اساس پر کمایا جائے، انہی ورکروں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ کہیئے کہ اب "لونڈی غلام" کی وکالت کرنے والے یہاں کیا کہیں گے ؟؟؟

حقیقت وہی ہے کہ اگر ہم اپنے قضیہِ کبری [main proposition]کے معانی کو آج کی جدلیاتی عقل کی کسوٹی سے گذار کر اس کی معروضی مادی حقیقت کو درست کر نے پر تیار نہیں ہیں ، تو یقین کیجیئے کہ معانی و بیان کے بہت سے نئے افق ہمارے لیے کھلنے سے انکار کر دیں گے۔ اور ہم عہدِ ملوکیت کی سازشوں کے آلہ کار بنے، یونہی اپنے دین کو خرافات سے آلودہ کرتے اور تمام دنیا کے آگے معذرت خواہانہ تاویلیں گھڑنے میں لگے رہیں گے کیونکہ غلامی کسی طور پر بھی انسانیت کی ہر قدر کی خلاف ورزی پر مبنی ہے اور دنیا کا کوئی بھی مذہب اور دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔

وہ اگلا مرحلہ اس کے بعد ہی آئیگا کہ ہم "نکاح" ، "فحش"، "محصنات"، وغیرہ قرآنی اصطلاحات کے معنی سمجھ سکیں ۔ کیونکہ جب تک بنیادیں درست سمجھ نہیں آئینگی ان پر کسی بھی مزید سوچ کی عمارت درست تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ "عورت" اور "نکاح" اور "سیکس یعنی مباشرت" کا ہر جگہ مروج سازشی معنی از خود اختیار کر لینے کا جنون ہمیں چھوڑنا ہوگا ۔ یہ ہمارا غلیظ بدبو دار ورثہ ہے اور ہمارے اعتقادات کا حصہ ۔ اس لیے یہ خاصا مشکل کام ہوگا ۔

تاہم آئیے اب ترکیب،، " ما ملکت ایمانکم"،، کی حامل جملہ اہم ترین آیاتِ مبارکہ کا تحقیقی ترجمہ انتہائی قرین عقل علمی انداز میں سب کے ملاحظے کے لیے پیش کر دیا جاتا ہے تاکہ اذہان میں اُٹھنے والے تمام سوالات کا شافی جواب دے دیا جائے اور مکمل شرحِ صدر کی صورتِ حال فراہم کر دی جائے ۔ اوپر ترجمہ کی گئی آیت کو ملا کر یہ کُل ۱۱ آیات ہیں جو اس موضوع کا مکمل احاطہ کرتی ہیں اور اس طرح اتمامِ حجت کا فرض ادا کرتی ہیں۔

یاد رہے کہ سورۃ نساء عورتوں کے بارے میں نہیں بلکہ پسے ہوئے، فراموش شدہ، نچلے اور کمزور طبقات، یا غریب اور محروم عوام کی فلاح و بہبود کے احکامات لے کر نازل ہوئی ہے ۔ اس سورت میں خواتین کا ذکر بھی جہاں جہاں آتا ہے وہ اسی لیے کہ عورت کو بھی اُسی کمزور اور پسے ہوئے طبقے میں شامل رکھا گیا تھا، اور آج تک مسلم تہذیب میں ایسا ہی رائج الوقت ہے۔ تو آئیے فکر و تحقیق کی اُس منزل کی جانب قدم بقدم آگے بڑھتے ہیں۔

۲} آیت ۴/۳ : وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾
""اگر پھر بھی ایسا اندیشہ لاحق ہو جائے کہ تمہارے لوگ یتیم بچوں کے معاملے میں انصاف نہ کر پائیں تو اس کا حل یہ ہے کہ معاشرے کے اس مخصوص کمزور اور نظر انداز کیے گئے گروپ میں سے [مِّنَ النِّسَاءِ] جو بھی تمہاری طبع کو موزوں لگیں [یا تمہارے لیے موزوں سمجھے جائیں] تم ان میں سے دو دو، تین تین یا چار چار کو ایک سمجھوتے [agreement]کے ذریعے اپنی سرپرستی، کفالت یاتحویل میں لے لو [فَانكِحُوا]۔ اس صورت میں بھی اگر اندیشہ ہو کہ سب سے برابری کا سلوک نہ ہو سکے گا تو پھر ایک بچہ ہی سرپرستی میں لے لو؛ یا پھر اگر کوئی قبل ازیں ہی تمہاری سرپرستی ، ذمہ داری یا تحویل میں [مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ] ہو تو وہی کافی ہے۔ یعنی کہ یہ امکان بھی پیشِ نظر رکھو کہ تم معاشی بوجھ میں زچ ہو کر نہ رہ جاو۔""

۳} آیت 4/24 : وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿٢٤﴾

""کمزور عوام میں سے [مِنَ النِّسَاءِ]جو جماعتیں/گروپس/کمیونیٹیز کوئی غیر قانونی یا غیر اخلاقی عمل کا ارتکاب نہ کر رہی ہوں [وَالْمُحْصَنَاتُ]، ان کو جبرا اپنے تسلط میں لانا منع کیا گیا ہے، سوائے ان کے جو ما قبل سے ہی کسی عہد و پیمان کے تحت تمہارے تسلط یا سرپرستی یا ماتحتی میں آ گئی ہوں [إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ] ۔ یہ اللہ نے تم پر ایک قانون کے طور پر لاگو کر دیا ہے [كِتَابَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ]۔ اور اس مخصوص صورتِ حالات کے علاوہ جو کچھ اور صورت اس معاملے کی ہو تو وہ تمہارے لیے جائز کر دی گئی ہے یعنی کہ اگر تم ان کی فلاح پر اپنے اموال خرچ کرتے ہوئے ایسی جماعتوں کو اپنی حفاطت کے حصار میں [محصنینَ] لانا چاہو، نہ کہ خون بہانے والے بن کر [غَيْرَ مُسَافِحِينَ ]۔ پھر تم ایسے لوگوں یا قوموں کے الحاق سے جو کچھ بھی فوائد حاصل کرو [اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ] تو انہیں اس کا پورا معاوضہ اور ان کے حقوق ایک فرض سمجھتے ہوئے ادا کرو [فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ]۔ اور اس میں کوئی برائی نہیں کہ اس فریضہ کو پورا کرنے کے بعد کچھ اور بھی علیحدہ سے تمہارے درمیان رضامندی سے طے پا جائے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اللہ تعالی تمہاری تمام کاروائیوں اور نیتوں کا علم رکھتا ہے اور نہایت دانش کا مالک ہے۔ ""
وضاحتی نوٹ:
درجِ بالا آیت ۴/۲۴ کے ضمن میں دراصل بات آیت ۴/۲۲ سے شروع ہوجاتی ہے جہاں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ : وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۚ ""تم اپنے کمزور عوام [النِّسَاء] کا وہ سب کچھ اپنے قبضہ و اختیار میں مت لےلینا [وَلَا تَنكِحُوا ]جو تمہارے آباء یعنی پچھلوں نے اپنے قبضہ و اختیار میں لے لیا تھا [مَا نَكَحَ ] ۔ ما سوا اس کے جو پہلے گذر چکا"""۔ اب یہاں واردات کچھ اس طرح کی گئی کہ سیکس کے متوالوں نے "نکاح" کا ایک ہی معنی پڑھ رکھا تھا ،،،،، یعنی شادی ۔اور نساء کا بھی ایک ہی معنی،،،،یعنی عورت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے جھٹ ترجمہ کر دیا گیا : "اُن عورتوں سے نکاح [یعنی شادی یا جنسی عمل] مت کرو جن سے تمہارے باپ دادوں نے نکاح [شادی یا جنسی عمل] کر لیا ہو "۔۔۔۔۔ یہاں غور کرنے کا نکتہ یہ ہے کہ لفظ نکاح کے ایک گہرے لغوی مطالعے نے ثابت کر دیا ہے کہ "نکاح" شادی کے معنوں میں صرف وہیں لیا جا سکتا ہے جہاں اس کے ذیل میں کوئی اور لفظ بھی استعمال کیا گیا ہو جو شادی کےمعنی کی جانب راہنمائی کرتا ہو۔ ۔۔۔۔۔ صرف لفظ "نکاح" جہاں بغیر کسی اضافی یا ذیلی لفظ یا لاحقے یا ترکیب کے لکھا پایا جائے گا وہاں اس کے معنی خود بخود مرد اور عورت کے درمیان شادی کا رشتہ نہیں سمجھا جا سکتا ۔ بلکہ وہاں اس کے دیگر معانی کا اطلاق ہوگا ۔ دیگر معانی میں "کسی پر تسلط کر لینا،،،کسی کو مغلوب کر لینا،،،کسی کو اپنے قبضے، تحویل وغیرہ میں لے لینا، کسی سے اتفاق رائے پر مبنی کوئی اشتراکِ عمل کر لینا [agreement] وغیرہ، وغیرہ" شامل ہیں، جو متن کے سیاق و سباق کے مطابق قابلِ اطلاق ہوں گے۔ اس لسانی قاعدے/قانون کی جانب یہ مستند اشارہ بات کو سمجھنے والوں کے لیے فکر و خیال کے کئی در کھول دیتا ہے اور ذہن میں اُٹھنے والے بہت سے سوالات کے جواب پیش کر دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی ہمارے قدیمی تراجم سے ہمارے اسلاف کی عقل و فکر کا فقدان ملاحظہ فرمائیے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ نئی نسل کے جوان لوگ اپنے بوڑھے باپ دادا کی استعمال شدہ یا منکوحہ خواتین کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں ،،،، اور وہ بھی اس شدو مد کے ساتھ کہ اللہ تبارک و تعالیِ کو اپنی کتاب میں اس امر کو تصریحا ممنوع قرار دینا پڑے ؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔یہ قرآن کے ساتھ کتنا بڑا مذاق کیا گیا ہے ؟؟؟۔۔۔۔۔۔ حساب لگائیے کہ باپ دادا کی منکوحہ خواتین عمر اور ضعیفی کے کس درجہ پر ہوں گی، اور وہ کون فاتر العقل جوا ن مرد ہوں گے جو اپنی ہم عمرخواتین کو چھوڑ کر اُن ضعیف عورتوں سے نکاح کرنا چاہیں گے جو در حقیقت اُ ن کی ماوں، نانیوں، دادیوں وغیرہ کے منصب پر سرفراز ہوں گی؟؟ پھر اگر کوئی سکالر یہ فضول تاویل دے کہ" عربوں میں ایسا ہوتا تھا"، تو اُس کی عقل پر فاتحہ پڑھنے کو دل چاہے گا۔۔۔۔میرے عزیز بھائیو، قرآن عربوں کے لیے نازل نہیں ہوا تھا، بلکہ جملہ انسانیت اور کُل اقوامِ عالم کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا تھا ۔ [وضاحت تمام شد]۔
۴} آیت ۴/۲۵: وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٢٥﴾
""اور پھر تم میں سے جن علاقوں کی قیادت مادی ذرائع کی فراوانی یا قوت [طولا] میں اتنی استطاعت نہ رکھتے ہوں کہ مضبوطی اور قوت رکھنے والی یا ناقابلِ دسترس مومن جماعتوں [الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ ]کے ساتھ کوئی اشتراکِ کار یا الحاق و بالا دستی کا سمجھوتا کر پائیں، تو پھر وہ تمہاری ما قبل سے زیر سرپرستی موجود جماعتوں/قوموں [مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم ] میں سے ہی نوجوان اور بہادر مومن گروپوں کے ساتھ الحاق یا شراکتِ کارکر لیں۔ اللہ تمہارے عہد و پیمان سے بخوبی با خبر رہتا ہے۔ تم سب ایک دوسرے کے قریبی ساتھی ہو۔ پس اشتراکِ عمل کے عہد نامے [فانكِحُوهُنَّ ] ان جماعتوں کے معتبر لوگوں کی اجازت سے کرو اور ان کے حقوق قانونی طریقے سے ادا کرو اس طرح کہ وہ اخلاقی اور قانونی طور مضبوط رہیں، خون نہ بہائیں اور نہ ہی خفیہ سازشیں کرنے والی ہوں۔ پھر جب وہ اس اشتراک کے نتیجے میں طاقتور اور محفوظ ہو چکی ہوں، اور پھر کسی قسم کی زیادتیوں کا ارتکاب کریں تو ان پر دیگر مضبوط اورتحفظ کی حامل جماعتوں کی نسبت نصف سزا لاگو ہوگی۔ یہ ترجیحی سلوک تم میں سے ان کے لیے ہے جو نا مساعد اور مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہوں ۔ لیکن اگر ان حالات میں بھی تم استقامت سے کام لیتے ہوئے اپنے کردار مضبوط رکھو گے تو یہ تمہارے لیے خیر کا باعث ہوگا کیونکہ اللہ تعالی مشکلات میں سامان تحفظ اور نشوونما دینے والا ہے۔ ""

۵} آیت ۲۳/۶: وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٥﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾
""اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رازوں/خفیہ پالیسیوں کی حفاظت کرتے یعنی انہیں چھپائے رکھتے ہیں ۔ سوائے اپنے قریبی ساتھیوں سے یا ان سے جو ان کے ماتحت کام کرتے ہوں [مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ]۔پس اس انداز میں کام کرنے پر وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں ۔""

۶} آیت ۲۴/۳۱ : وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿النور: ٣١﴾
"اور تمام امن و ایمان کی ذمہ دار جماعتوں/ٹیموں کو ہدایت دے دو کہ وہ اپنی انٹیلیجنس اور اپنی سوچوں[ أَبْصَارِهِنَّ] کو کنٹرول میں رکھیں، اور اپنے رازوں/ خفیہ پالیسیوں کی حفاظت کیا کریں۔ اور اپنی ترقی اور شان وعظمت کی پالیسیوں [ زِينَتَهُنَّ] کو عام مت کریں سوائے اُس جزء کے جو خود ہی ظاہر ہو جائے۔ اور اپنی عقلی خطاوں کو [ بِخُمُرِهِنَّ] ضرور بیان کرکے [وَلْيَضْرِبْنَ ] احتساب کے لیے سامنے لائیں ۔ اور اپنی بہتری اور عروج کی پالیسی اور اقدا مات [ زِينَتَهُنَّ] کو سوائے اپنے ڈائریکٹ ذمہ دارافسروں [لِبُعُولَتِهِنَّ ] کے اور کسی پر ظاہر نہ کریں [ لَا يُبْدِينَ ]۔ ایسے پالیسی معاملات کو نہ تو اپنے بڑوں پر اور نہ ہی اپنے افسروں کے بڑوں پر اور نہ ہی اپنے چھوٹوں پر، نہ ہی اپنے سربراہوں کے دیگرماتحتوں پر،نہ ہی اپنے ساتھی افسران پر اور نہ ہی ان کے جونیروں پر اورنہ ہی اپنی ساتھی جماعتوں پر، اور نہ ہی اپنے عوام پر یا اپنے ماتحت کام کرنے والوں [مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ] پر اور نہ دیگرمردوں یا طفلانہ مزاج رکھنے والوں میں سےاُن "تابعین" یا احکام بجا لانے والوں پر جو خلوت کے حساس اور کمزورمواقع پرموجود ہونے کا حق نہیں رکھتے، اور نہ ہی کھولیں چھوٹے ماتحت طبقے [ لَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ] پر تاکہ وہ کبھی نہ جان پائیں کہ ان کی ترقیاتی سوچوں میں کیا چھپا ہوا ہے۔ اور اے امن و ایمان کے ذمہ دارو تم سب مجموعی طور پر حکومتِ الہیہ کی خیر خواہی کی جانب پلٹ جاو تاکہ تم سب فلاح پا جاو۔

7} آیت ۲۴/۳۳: وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّـهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَن يُكْرِههُّنَّ فَإِنَّ اللَّـهَ مِن بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٣﴾
""نیز وہ لوگ جو کسی کنٹریکٹ کے تحت کوئی کام حاصل نہ کر پائے ہوں ، تو وہ ضبطِ نفس سے کام لیں یہاں تک کہ اللہ تعالیِ اپنے فضل سے انہیں احتیاج سے آزاد کر دے ۔ اسی طرح وہ لوگ جو تمہاری ملازمت سے آزاد ہونا چاہیں تو تم انہیں فراغت کا پروانہ دے دو اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اس اقدام میں ان کی بہتری ہو۔ اور ان کی مدد کے لیے اللہ کے اُس مال میں سے کچھ دے دو جو اس ذاتِ پاک نےتمہیں عطا کیا ہے۔ اپنی دنیاوی اغراض کے لیے اپنے نوجوان نسل یا کمیونٹی کو جبر و استحصال کا استعمال کرتے ہوئے بغاوت پر آمادہ نہ کیا کرو ۔اگر وہ اپنے کیریر کے معاملے میں تحفظ اور مضبوطی حاصل کرنے کا ارادہ کریں تو ان کی مدد کرو۔ پھر جن پر جبر کیا جائیگا تو حکومتِ الہیہ کا فرض ہے کہ جبر و استحصال کا شکار ہونے والوں کو سامان ِ حفاظت اور مرحمت عطا کرے۔""

8} آیت ۸ ۲۴/۵: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٨﴾
""اے امن و ایمان کے قیام کے ذمہ دارو، یہ ضروری ہے کہ وہ جو تمہاری سرپرستی اور ماتحتی میں کام کرتے ہوں [الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ] اور خود تمہارے ساتھیوں میں سے وہ بھی جو ابھی سنجیدگی و تدبر کے درجے تک نہ پہنچے ہوں ، تین مواقع پر تم سے رخصت کی اجازت لے لیا کریں۔ اس سے قبل کہ تمہاری صبح کے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کا وقت شروع ہو جائے،،،،،، اُن میٹنگز کے دوران جن میں تم اپنی ترقی، پیش قدمی و غلبے کے مقصد سے اپنا لائحہ عمل تشکیل دے رہے ہو،اور تمہاری شام کی ڈیوٹیوں کی ادائیگی کے بعد۔ یہ تینوں اوقات تمہارے لیے نازک، حساس اورخلوت کے مواقع ہوتے ہیں۔ ان تین مواقع کے علاوہ تم پر اور ان پر آپس میں ملنے جلنے میں کوئی برائی نہیں ۔ کیونکہ تم میں سے بہت سے تمہارے لیے اور تمہارے دوسرے ساتھیوں کے لیے نگرانی و نگہبانی کی خدمات بھی انجام دیتے ہیں ۔ اللہ تم پر اس طرح اپنی ہدایات کھول کر واضح کر دیتا ہے، کیونکہ اللہ تمہارے تمام حالات کو جاننے والا بھی ہے اور دانش و تدبر کا مالک بھی ہے۔""
۹} آیت الروم ۲۸: ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿الروم: ٢٨﴾
""اور وہ تمہیں تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے ۔ یہ بتاو کہ کیا تمہارے ماتحت ملازمین [مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم]تمہیں دیے گئے ہمارے رزق میں اس طور پر شریک کیے گئے ہیں کہ تم اور وہ سب اس ضمن میں برابری کی بنیاد پر آ گئے ہوں ؟؟؟۔۔۔۔ اور کیا تم ان کے لیے بھی اس طرح خوف یا اندیشہ محسوس کرتے ہو جیسا کہ خود اپنی ذات کے لیے کیا کرتے ہو؟؟؟۔۔۔۔ یہ ہے وہ انداز جس سے ہم اپنے احکامات اُس قوم پر واضح کرتے ہیں جو عقلوں سے کام لیتی ہے ۔""

10} آیت۳۳/۵۰: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥٠﴾
""اے سربراہ مملکت الٰہیہ [يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ] ہم نے آپ کے ان ساتھیوں/لوگوں [أَزْوَاجَكَ] کو جن کے معاوضے /اجرتیں [أُجُورَ‌هُنَّ ] آپ نے مقرر کردیے ہیں، آپ کے مشن پر کام کرنےکے لیے [لَكَ ] دیگر پابندیوں اور ذمہ داریوں سے آزاد قرار دے دیا ہے [أَحْلَلْنَا] اور انہیں بھی جنہیں اللہ نے مالِ غنیمت کے توسط سے آپ کی ذمہ داری بنایا ہے [أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ] اور وہ آپ کی زیرِ سرپرستی ونگرانی ہیں [مَلَكَتْ يَمِينُكَ ]۔ نیز وہ خواتین جو آپ کی چچا زاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد اور ماموں زاد ہیں جنہوں نے آپ کی معیت میں ہجرت اختیار کی ہے ، اور ہر وہ مومن خاتون جو نبی کے مشن کے لیے رضاکارانہ خود کو پیش کرتی ہو، تو اگر نبی بطورِ سربراہِ مملکت ارادہ فرمائے تو انہیں قاعدے /قانون/ کنٹریکٹ/ ایگریمنٹ کے مطابق فرائض ادا کرنے کے لیے طلب کر سکتا ہے [أَن يَسْتَنكِحَهَا ]۔ اس معاملے میں اختیار و فیصلہ کا حق صرف آپ کا ہے دیگر ذمہ داروں [الْمُؤْمِنِينَ] کا نہیں۔ جہاں تک دیگر ذمہ داران کا تعلق ہے تو اُن کی جماعتوں/ساتھیوں کے ضمن میں اُن پر جو بھی فرائض ہم نے عائد کیے ہیں وہ بتا دیے گئے ہیں تاکہ تمامتر معاملات کی ذمہ داری کا بار آپ پر ہی نہ آ جائے۔ اللہ کا قانون سب کو تحفظ اور نشوو نمائے ذات کے اسباب مہیا کرتا ہے۔""

11} آیت ۳۳/۵۴: لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّ‌قِيبًا ﴿٥٢﴾
""بعدازاں یا علاوہ ازیں خواتین [النِّسَاءُ ] آپ کے مشن کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں کی جاسکتیں [لَّا يَحِلُّ ]۔ نہ ہی آپ ان کے موجودہ گروپس کو نئے لوگوں [أَزْوَاجٍ ]سے تبدیل کریں خواہ ان کی خوبیاں آپ کوپسند ہی کیوں نہ آئیں ۔ اس میں استثناء صرف ان کے لیے ہے جو ما قبل سے آپ کے زیر سرپرستی و نگرانی میں آ چکی ہوں [إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ]۔ اللہ کا قانون ہر شے کی نگرانی کا ذمہ دار ہے۔""

موضوع کا اختتام کرتے ہوئے یہ امر قارئین کے لیے واضح کرنا ضروری ہے کہ ہم عصر محققین میں سے صرف لاہور کے ڈاکٹر قمر زمان نے اس ضمن میں ایک جدید قرینِ عقل ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے جس کا اعتراف کرنا ضروری ہے، اور جسے اُن کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس عاجز کی ذاتی رائے میں موصوف کے اکثر تراجم نہ صرف غیر واضح بلکہ زبان و بیان کے سنگین ابہامات سے پُر ہوتے ہیں اور اپنا مافی الضمیر اور ضروری تناظر سامنے لانے اور سمجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ موصوف کچھ عرصہ قبل دہریت اور مادیت کی لائن اختیار کر چکے ہیں اور اس ضمن میں و ہ اپنا آزادیِ رائے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن اس ذاتی رائے کے اظہار سے یہ مراد نہیں کہ موصوف کواس اہم موضوع پر قدیمی جمود کو توڑنے اور جدید تحقیق کی سمت کوشش کرنے پر واجب کریڈٹ نہ دیا جائے۔

اس مقالے میں شامل تمام اہم قرآنی الفاظ کے معانی کی پوری وسعت دنیا کی اہم ترین لغات سے تحقیق کے بعد شامل ِ حال کر دی گئی ہے۔ تحقیق کرنے والے قارئین انہیں ذیل میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔
Tha-Kh-Nun ث خ ن : یثخن: = to be thick, become coarse, stiff, subdue thoroughly, have a regular fighting, cause much slaughter, have a triumphant war, to render/inflict, to be made heavy with something or prone. athkhana - to do something great, make much slaughter, overcome, battle strenuously.
Nun-Kaf-Ha ن ک ح ؛ نکح= to tie, make a knot, contract, to marry, marriage.
Ha-Sad-Nun ح ص ن ؛ حصن؛ = To be guarded, be inaccessible/unapproachable, be chaste, be strongly fortified, difficult to access, be preserved, be protected (against attack), abstain from what is not lawful nor decorous, preserve or guard a thing in places inaccessible/unapproachable, make or render a thing inaccessible or unapproachable or difficult to access, make/render a thing unattainable by reason of its height, to fortify oneself.
Tay-Waw-Lam ط و ل ؛ طولا؛ = to be long, continue for a long time, be lasting, be protracted. taulu - plenty of wealth, sufficiency of personal social and material means, power. tuulun - height. tawiilun - long. tatawala - to spread, be lengthened/prolonged.
Fa-Ta-Ya ؛ ف ت ی؛ فتی ؛ فتیات؛ = to be young, full-grown, brave, generous, manly qualities, bold, courageous, fine fellow, gallant, young comrade, young slave, servant.
afta - to advise, give an opinion/instruction, decision, judgement or decision in a matter of law, give a formal legal decree, announce of inform a legal order, issue a (divine) decree or sacred law, explain the meaning, pronounce, furnish explanation.
Ayn-Nun-Ta ع ن ت ؛ عنت ؛ = to meet with difficulty, fall into distress, be overburdened, commit a crime, be spoiled, constrain anyone to do a thing, cause anyone to perish, beat harshly. a'nata - to bring anyone into difficulty, beat roughly, cause annoyance, confuse. anatun - sin/crime/mistake/difficulty.
Gh-Dad-Dad غ ض ض؛ غضض؛ یغضضن؛ = lowered, contracted, lessened, restrain
ب ص ر = Ba-Sad-Ra = Becoming perceptive, mental perception, having belief or knowledge, understanding, intelligence or skill, knowing, giving light, shining, illuminated, making manifest, evident and/or apparent.
To behold/perceive/see/observe/watch.
Zay-Ya-Nun ز ی ن ؛ زینہ؛ زینتکم؛ = To adorn, deck. Adorn, grace, honor [said of an action, quality, or saying]. Embellished, dressed, or trimmed it [relating to language]. Adorned [ex. The earth, or land, became adorned with or by it's herbage], ornamented, decorated, decked, bedecked, garnished, embellished, beautified, or graced him/it. Of language it is said: "It was embellished, dressed up, or trimmed". Of action it is said: "It was embellished, dressed up"; i.e. commended to a person by another man. A grace, a beauty, a comely quality, a physical/intellectual adornment, an honour or a credit, and anything that is the pride or glory of a person or a thing. Rank, Station, Dignity.
Kha-Miim-Ra خ م ر ؛ خمر : = cover/conceal/veil, becoming changed/altered from a former state/condition, mixed/mingled/incorporated/blended, intoxication/wine/grapes, make-up, any intoxicating thing that clouds/obscures the intellect, come upon secretly/unexpectedly, crowding of people, odour of perfume, women's head cover, man's turban, a covering, something fermented/matured.
ج ي ب: = Jiim-Ya-Ba = to cut out a collar of a shirt, opening at the neck and bosom of a shirt, an opening in a shirt (e.g. where the head goes through or the sleeve), pocket (derived because Arabs often carry things within the bosom of a shirt), bosom, heart, place of entrance for a land/country, hollowed.

ب ع ل Ba-Ayn-Lam = Husband, took a husband or became a wife: People intermarrying with a people; Playful toying between man and wife; Resistance
Obedience to the husband
Lord, master, owner or possessor, Head, chief, ruler or person in authority
Someone whom it is a necessary duty to obey;
Lacking strength, power or ability; Elevated land; Confounded or perplexed
Baal (pre-Islamic deity, 37:125)?
Alif-Kha-Waw اخوان؛ اخوات؛ اخی؛ اخت : = Male person having the same parents as another or a male only having one parent in common; person of the same descent/land/creed/faith with others; brother; friend; companion; match; fellow of a pair; kinsman; intimately acquainted.Signifying the relation of a brother - brotherhood/fraternity. Act in a brotherly manner. An associate/fellow. Sister, female friend. When it does not relate to birth, it means conformity/similarity and combination/agreement or unison in action.
Ha-Lam-Miim ; ح ل م ؛ حلم = To dream, have a vision. Attain to puberty. Experience an emission of seminal fluid (whether awake or in sleep), dream of copulation in sleep. To be forbearing or clement, to forgive and conceal offences, to be moderate/gentle/deliberate/leisurely in manner, patient.
Alif-Dhal-Nun =اذن؛ استاذن؛ یستاذن he gave ear or listened to it, being pleased, grant leave, to allow, permit/ordered, be informed, advised, جانے کی اجازت مانگنا: notification/announcement/proclamation, ear, appetite/longing/yearning. Yasta'dhinuu (imp. 3rd. p. m. plu.): They ask leave.
ظہر؛ ظہیرۃ Za-ha-Ra = to appear, become distinct/clear/open/manifest, come out, ascend/mount, get the better of, know, distinguish, be obvious, go forth, enter the noon, neglect, have the upper hand over, wound on the back.
الفجر: break open/cut/divide lengthwise/dawn, sunrise, daybreak.، پھاڑ کر کھول دینا/کاٹ دینا/ لمبائی میں تقسیم کر دینا/صبحِ صادق/سورج کا طلوع ہونا/دن کا نمودار ہونا
= Tha-Waw-Ba ثوب؛ ثیاب: = لائحہ عمل/ پالیسیActions, Conduct, raiment, garments, morals, behaviour, heart, dependents, followers, robes, clothes, pure/good hearted, of good character. to return, turn back to, to restore/recover, to repent, to collect/gather.
to call/summon (repeatedly), rise (dust), to flow, become abundant.
something returned (recompence, reward, compensation), to repay.
a thing which veils/covers/protects, a distinct body or company of people.
mathabatan - place of return, place to which a visit entitles one to thawab/reward, assembly/congregation for people who were dispersed/separated previously, place of alighting, abode, house, tent.